افغانوں کی فتح کا خاص راز!!! ازقلم غنی محمود قصوری

0
89

غلامی ایک بہت بڑی لعنت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غلامی کو ناپسند کیا ہے اس کئے میرے نبی نے غلبہ اسلام کے لئے غزوات کئے اور صحابہ و امت محمدیہ کو جنگ کیلئے تیار رہنے کا حکم دیا
آج ہم بات کرتے ہیں اپنے ہمسائے اور اسلامی دوست ملک افغانستان کی یہ ملک مختلف ادوار میں مختلف سپر پاروں کے قبضے میں رہا مگر ہر بار شکشت سپر پاوروں کا مقدر ٹھہری پچھلی صدی کی فرعون صفت سپر پاور برطانیہ نے 1919 میں افغانستان پر قبضہ کیا تو افغانی اپنے لیڈر شاہ امان اللہ خان کی قیادت میں اٹھ کھڑے ہوئے اور وقت کی سپر پاور کا ستیا ناس کر دیا
اس کے بعد دنیا کی بہت بڑی سپر پاور جسے دنیا سرخ ریچھ کے نام سے پکارتی تھی افغانستان پر قابض ہو گئی مگر 1979 سے 1989 تک اس دس سالہ جنگ میں افغانیوں نے اس سرخ ریچھ کو ایسے مارا کہ دنیا آج بھی اس کے ہوئے ٹکڑے دیکھ کر ششدرہ رہ جاتی ہے اس جنگ میں پاک آرمی نے افغانستان کا بھرپور ساتھ دیا تھا یو افغانستان میں ایک اور سپر پاور کی قبر کا اضافہ ہو گیا اس کے بعد افغانیوں کی آپسی لڑائی سے خانہ جنگی شروع ہو گئی اور آخر افغان طالبان اسلامی نظام قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے جو موجودہ وقت کی سپر پاور امریکہ کو ایک آنکھ نا بھاتا تھا اور اسی دوران 2001/9/11 کو امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون پر حملہ ہوا جس کا الزام امریکہ نے اسامہ بن لادن پر لگایا جو اس وقت افغانستان میں تھے اور اسی کو جواز بنا کر امریکہ افغانستان پر 7 اکتوبر 2001 کو افغانستان پر حملہ کر دیا
امریکہ کا خیال تھا ساری دنیا اس کے تابع ہے اور جلد افغانی بھی زیر ہو جائینگے اور یوں اسے پاکستاں پر قبضہ کرنے میں آسانی ہو گی مگر وہ بھول گیا کہ اس کی پنجہ آزمائی افغانستان اور پاکستان سے ہے گو کہ پاکستان ڈبل گیم کھیل رہا تھا مگر اصل کردار پاکستان کا ہی ہے خیر وقت کا فرعون امریکہ آج 19 سال بعد بھی افغانستان میں خاک چاٹ رہا ہے جبکہ افغان طالبان نے 80 فیصد علاقے پر دوبارہ کنٹرول کر لیا ہے اب امریکہ پاکستان سمیت افغانیوں اور دیگر ممالک کی منت سماجت کر رہا ہے کہ مجھے جانے دو مگر افغانی کہتے ہیں جو لینے آئے تھے ابھی وہ تو لیتے جاؤ یعنی ٹکڑے ٹکڑے ہونا جیسا کہ برطانیہ و روس ہو چکا اس لئے امریکہ بار بار امن معائدے کر رہا ہے انہی طالبان سے جنہیں وہ کہتا تھا کہ یہ جانوروں سے بھی بدتر لوگ ہیں میں ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دونگا مگر آج 19 سال بعد بھی افغانی اسی آن بان شان سے لڑ رہے ہیں جبکہ امریکی فوجیوں سمیت امریکہ عوام سڑکوں پر نکل رہی ہے کہ افغانستان جنگ کو ختم کیا جائے مگر ان شاءاللہ پاکستان اور افغان طالبان امریکی ریاستوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے تک ہر صورت اس جنگ کو جاری رکھیں گے چاہے امریکہ اس وقت سپر پاور نہیں بھی رہا مگر مقصد اسے توڑنا ہے جو کہ ان شاءاللہ پورا ہونے ہی والا ہے
سوچنے کی بات ہے بھوک افلاس کے مارے افغانی جن کی معیشت انتہائی کمزور ہے وہ اس قدر غالب کیوں ہو رہے ہیں اس کے لئے ہم پہلے دیکھتے ہیں رب کا فرمان کہ افغانی اس پر کس قدر عمل پیرا ہیں
اللہ تعالی فرماتے ہیں تمام مسلم ممالک ،حکمرانوں اور لوگوں کیلئے
اور ان کافروں کے لئے جس قدر تم سے ہو سکے قوت سے اور پلے ہوئے گھوڑوں سے سامان جمع رکھو اور اس کے ذریعہ سے تم ان پر رعب جمائے رکھو ،ان پر جو کہ کفر کی بدولت اللہ کے دشمن ہیں اور تمہارے دشمن ہیں اور ان کے علاوہ دوسروں پر بھی جن کو تم نہیں جانتے ان کو اللہ ہی جانتا ہے۔اور اللہ کی راہ میں جو چیز بھی خرچ کرو گے وہ تم کو پورا پورا دے دیا جائے گا اور تمہارے لئے کچھ کمی نا ہو گی۔ الانفال 60
اس سورت میں اللہ تعالی تمام مسلمانوں ،حکمرانوں کو غالب رہنے کا طریقہ بتا رہے ہیں کہ جن کافروں اللہ کے دین کے باغیوں کو تم جانتے ہو ان کیلئے قوت جمع رکھو اور اس قوت سے ان پر رعب طاری رکھو قوت سے مراد فی زمانہ اسلحہ ہے جیسے کبھی تلواروں تیروں کا دور تھا آج ویسے ہی کلاشن کوف و دیگر اسلحہ قوت ہے خود میرے نبی کی اسلحہ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو گھر میں چراغ جلانے کو تیل نا تھا مگر رب کے فرمان اور ان کافروں کیلئے قوت تیار رکھو، پر عمل کرتے ہوئے نو تلواریں موجود تھیں آج افغانی بھی رب کے فرمان اور محمد ذیشان کے حکم پر ہتھیار بطور قوت لازمی رکھتے ہیں ان کا بچہ بوڑھا اور جوان تو دور عورتیں بھی اسلحہ چلانے میں ماہر ہوتی ہیں بلکل جیسے دور نبوی میں تمام اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقٹ جنگ کے سپاہی بن کر رہتے تھے آج بلکل اسی کی مانند افغانی بھی ہر وقت جنگ کیلئے تیار رہتے ہیں
ان کی جنگی تیاریوں کا ایک حقیقی قصہ آپ کو سناتا ہوں
یہ 2001 کی بات ہے کراچی کا ایک تاجر تھا جو کہ اکثر و بیشتر بسلسلہ کاروبار کابل جایا کرتا تھا چونکہ اس وقت بارڈر کھلا تھا اس لئے آنے جانے میں دقت نا تھی وہ کہتا ہے کہ ایک دن میں اپنے چار دوستوں کے ہمراہ کابل گیا وہاں میرا ایک حاجی قدرات اللہ نامی تاجر بڑا اچھا دوست بنا ہوا تھا جو کہ کراچی میرے پاس آتا رہتا تھا اس کا گاڑیوں کا بہت بڑا شو روم تھا
مجھے خریداری کرتے ہوئے دیر ہو گئی تو میں سلام دعا کیلئے قدرت اللہ کے پاس چلا گیا جس نے اپنی طرز کی خصوصی مہمان نوازی کی تو میں نے جانے کی اجازت مانگی تو کہنے لگا بھائی رات ہو گئی ہے آج رات میرے پاس ہی رک جاؤ تاجر کہتا ہے میں نے اس کی بات مان لی اور اس کے ساتھ اس کی گاڑی میں بیٹھ گیا جبکہ میرے ساتھی میری گاڑی میں پیچھے ہو لئے نصف گھنٹے کے سفر کے بعد ایک بہت بڑا دروازہ آ گیا جس کے کھلنے پر گاڑی اندر داخل ہو گئی تو مجھے افغانی دوست نے ایک کمرے میں بیٹھنے کو کہا جو کہ مٹی کا بنا ہوا تھا بلکہ مین گیٹ سے سارا گھر ہی مٹی سے تیار کیا گیا تھا کہتا میں سوچنے لگا یہ 5 سو سے اوپر گاڑیوں کے شو روم کا مالک ہے اس کا تو گھر بہت شاندار ہو گا شاید یہ اس کا کوئی فارم ہاؤس ہو خیر اتنے میں حاجی قدرت اللہ داخل ہوا اور ہم کھانا کھانے لگے میرے دوسرے دوست اور حاجی قدرت اللہ کا منشی بھی ساتھ تھا کہتا مجھ سے رہا نا گیا اور میں نے پوچھ لیا کہ حاجی صاحب آپ کا گھر کہا ہے تو اس پر حاجی صاحب مسکرا کر بولا یہی تو گھر ہے جہاں ہم بیٹھے ہیں کہتا مجھے شدید جھٹکا لگا کہ کڑوروں کا مالک اور کچہ گھر کہتا ہے میں حاجی صاحب سے کہنا لگا کہ حاجی صاحب آپ ماشاءاللہ صاحب حیثیت ہیں بہت بڑا کاروبار ہے آپ کا تو پھر یہ کچہ گھر کیوں؟ جبکہ ہمارے پاکستان میں تو رواج ہے اگر کسی کے پاس ایک کروڑ روپیہ آ جائے تو وہ نصف کروڑ سود وغیرہ پر ادھار پکڑ کر اعلیٰ ترین مکان بناتا ہے تاکہ لوگ داد دے سکیں اور سٹیٹس اونچا رہے اور لوگ کہیں کہ یہ بنگلہ فلاں صاحب کا ہے
اس پر حاجی صاحب کہنے لگے بھائی صاحب یہ دنیا فانی ہے گھر سنگ مر مر کا ہو یا مٹی کا اس میں تو وقتی گزارہ ہی کرنا ہے آپ تو جانتے ہیں کہ ابھی روس سے لڑے تھوڑا عرصہ ہی ہوا ہے اب اوپر سے امریکہ دھمکیاں دے رہا ہے کیا پتہ کب یہ گھر چھوڑنا پر جائے اور مجھے اپنی کلاشن اٹھا کر پھر سے ملا عمر کیساتھ جہاد میں نکلنا پڑے سوچو اگر میرا بہت قیمتی گھر ہو گا تو مجھے اسے چھوڑنا مشکل ہو گا اب یہ گھر میرے لئے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا آپ تو جانتے ہیں کل روس آ گیا تھا اس کے خلاف لڑے تھے اب امریکہ آنکھیں دکھا رہا ہے اب اس کے خلاف لڑنا فرض ہے اس لئے بھائی صاحب میرے لئے گھر زیادہ ضروری نہیں ملکی دفاع ضروری ہے
تاجر کہتا ہے میں اس کی باتیں سن کر ششدرہ رہ گیا اور واپس کراچی آ گیا ٹھیک چار ماہ بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر دیا اس کے بعد میرا حاجی قدرت اللہ سے رابطہ نا ہوا تقریبا 16 ماہ بعد حاجی قدرت اللہ کا منشی میرے پاس کام کے سلسلے آیا تو میں نے اس سے پوچھا حاجی صاحب اور اس کے خاندان کی بتاؤ کیسے ہیں تو منشی کہنے لگا جب امریکہ نے دھمکیاں دینا زیادہ کر دیں تو حاجی صاحب کو اندازہ ہو گیا تھا اب امریکہ جنگ کے بغیر نہیں رہے گا سو اسی دن حاجی صاحب نے اپنے بال بچے پشاور پاکستان بھیج دیئے اور خود واپس آ کر مجھے گاڑیوں کی اصل قیمت کی لسٹ بنا کر دے دی پوری 480 گاڑیاں تھیں سب کی اصل قیمت خرید ساتھ لکھی تھی اور یہ بھی لکھا تھا کہ میں امریکہ کے خلاف امیر المومنین ملا عمر کے ساتھ جنگ کی تیاری کرنے لگا ہوں سو میں یہ کاروبار ختم کر رہا ہوں یہ گاڑیوں کی اصل قیمت ہے اگر ہو سکے تو ان کی اصل قیمت کے علاوہ کچھ نفع دے دیں ورنہ اصل قیمت ہی دے دیجئے کیونکہ مجھے معرکہ حق و باطل میں اسلام کا دفاع کرنا ہے منشی کہتا ہے کہ میں وہ لسٹ اور گاڑیاں لے کر دوسرے تاجروں کے پاس گیا جن کا حاجی صاحب سے لین دین تھا کسی نے نفع دیا تو کسی نے نا دیا میں ساری رقم لے کر حاجی صاحب کے پاس واپس آ گیا جو اب اپنی کلاشن کوف پکڑے ہوئے تھے انہوں نے مجھے میری رقم دی اور باقی رقم سے کچھ پشاور گھر پہنچا دی اور کچھ کا اسلحہ خرید لائے اب اللہ جانے کہاں ہیں کس حال میں ہیں مگر ان کا خاندان پشاور میں رہ رہا ہے
تاجر کہتا ہے یہ سنتے ہی میں کافی دیر سوچ میں ڈوبا رہا کہ ان افغانوں کی اصل کامیابی کا راز کتاب اللہ اور سنت محمد پر عمل کرتے ہوئے کفار کیلئے قوت تیار رکھنا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کا پیدا ہونے والا بچہ چلنے بولنے کیساتھ ہتھیار چلانا بھی سیکھ جاتا ہے ان کے گھر تو کچے ہوتے ہیں مگر ان کا اسلحہ اور ان کی گاڑیاں جدید اور طاقتور ہوتی ہیں اور ان کے ایمان انتہائی مضبوط
قارئین اللہ رب العزت کوشش مانگتا ہے نتیجہ نہیں آج افغانیوں کی کوشش کو 19 سال ہو گئے جس کی بدولت اپنے ساتھ سپر پاور لکھنے والا فرعون صفت امریکہ سپر پاور کا لفظ ہی بھول گیا ہے اور اب قطر میں تو کبھی کسی ملک میں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کرتا نظر آتا ہے اور وہ افغانی اپنے تانے ہوئے سینوں سے امریکہ کے دلوں پر رعب طاری کئے ہوئے ہیں
افغانی سپر پاوروں سے زیر اس لئے نہیں ہوتے کیونکہ ان کے دلوں میں وہن نہیں وہ حکم ربی کی بدولت جہاد و قتال کے لئے تیار رہتے ہیں
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اسلام و پاکستان کیلئے کافروں کے دلوں میں رعب طاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

Leave a reply