اسلام آباد (03نومبر 2020)ء سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی ترقی و اصلاحات کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر آغا شاہ زیب درانی کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں 30ستمبر 2020کو منعقد ہونے والے کمیٹی اجلاس میں دی گئی سفارشات پر عملدرآمد، دیامیر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کے منصوبوں کی عملی اور مالی طور پر پیش رفت، اسلام آباد میٹرو بس سروس منصوبے کی تکمیل میں تاخیر اور اونر شپ کے معاملے کے علاوہ صوبہ سندھ کے پی ایس ڈی پی 2019-20کے پانی کے منصوبوں کی تفصیلات کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔
30ستمبر 2020کو منعقد ہونے والے کمیٹی اجلاس میں دی گئی سفارشات پر عملدرآمد کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ قائمہ کمیٹی نے
پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے حوالے سے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ منصوبے جو 80فیصد مکمل ہو چکے ہیں اُن کے فنڈ ریلیز نہ ہونے کی وجہ سے ملک و قوم کو اربوں کا نقصان ہوتا ہے۔ اراکین کمیٹی نے کہا کہ ایس ڈی جیز پر حکومت غیر سنجیدہ نظر آرہی ہے۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ کیبنٹ ڈویژن کی ایک اسٹرینگ کمیٹی بنائی گئی ہے اس قائمہ کمیٹی کی سفارشات کو اُس میں پیش کر کے تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔سینیٹر ڈاکٹر اسد اشرف نے کہا کہ نیلم جہلم سرچارج ابھی تک وصول کیا جا رہا ہے جو عوام پر ظلم ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ملک میں پہلے ہی مہنگائی بہت زیادہ ہے اوپر سے نیلم جہلم سرچارج وصول کرنا نا انصافی ہے۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ نیلم جہلم سرچارج کی رقم دیامر بھاشا ڈیم پر منتقل کرنے کی تجویز مسترد کی گئی تھی اور اس مد میں 4.7ارب روپے بھی جمع ہو چکے ہیں۔نیلم جہلم سرچارج کی مد میں سالانہ 6 ارب روپے وصول کئے جاتے ہیں۔ ای سی سی میں نیلم جہلم سرچارج کی رقم کو دوسرے منصوبوں پر منتقل کرنے کی سمری موجود ہے۔ جس پر اراکین کمیٹی نے کہا کہ نیلم جہلم منصوبہ مکمل ہوا مگر سرچارج لینے کو روکا کیوں نہیں گیاکس قانون کے تحت عوام سے یہ وصول کیا جا رہا ہے۔چیئرمین کمیٹی نے ورکنگ پیپر ز کی قانون کے مطابق قائمہ کمیٹی کو عدم فراہمی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر آئندہ کسی بھی محکمے نے قانون کے مطابق وقت پر ورکنگ پیپر فراہم نہ کئے تو معاملے کو استحقاق مجروح کرنے کے مترادف سمجھا جائے گا۔ قائمہ کمیٹی نے سرچارج لگانے کے حوالے سے دی گئی تفصیلات آئندہ اجلاس میں طلب کر لیں اور فی الفور بجلی کے بلوں سے نیلم جہلم سرچارج کو ختم کرنے کی سفارش کر دی۔ صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقے ضلع کوہاٹ میں بجلی کی ترسیل کے انفراسٹرکچر کی بحالی کے معاملے کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ کوہاٹ میں ان منصوبوں کے حوالے سے فنڈنگ کے مسائل ہیں اپریل مئی میں فنڈز ملے تھے جو لیپس ہو گئے تھے۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان منصوبے کے فنڈنگ کے مسائل کو جلد سے جلد حل کر کے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔  
قائمہ کمیٹی کو دیامیر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کے منصوبوں کی عملی اور مالی طور پر پیش رفت بارے تفصیلی آگاہ کیا گیا۔ بھاشا ڈیم کے حوالے سے بتایا گیا کہ اس ڈیم کی انچائی 272میٹر ہے جس کی پانی زخیرہ کرنے کی استعداد 8.1ملین ایکڑ فٹ ہے اس سے 4.5ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہو سکتی ہے یہ منصوبہ 8.5سال میں مکمل ہو گا۔ اس کا پی سی ون 480ارب کا ہے جس کی منظور ایکنک 14نومبر 2018کو دی تھی۔ یہ منصوبہ 2029میں مکمل ہو گا اس سے 16ہزار نوکریاں ملے گی اس میں 35فیصد غیر ملکی کمرشل فنڈنگ، 33فیصد واپڈا اور 26فیصد پی ایس ڈی پی سے گرانٹ ملے گی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس منصوبے کا ایک بورڈ آف ڈائریکٹر ہے جس میں سرکاری و پرائیویٹ ممبران شامل ہونگے۔ قائمہ کمیٹی نے ممبران کی تقرری کے طریقہ کار کی تفصیلات طلب کر لیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ چین کی ایک کمپنی اور پاکستان کی ایک کمپنی کے ساتھ جوائنٹ ونچر میں کام کیا جائے گا۔ جس میں 70فیصد چینی کمپنی اور 30فیصد پاکستانی کنٹر یکٹر شامل ہونگے۔ زمین کا پہلا پی سی ون 60ارب کا تھا جو ریوائز ہو کر 101ار ب کا ہوا اور پھر ریوائز ہو کر 175ارب کا ہو گیا ہے۔ ڈیم کیلئے 35924ایکڑ زمین درکار ہو گی جس میں سے 32753ایکڑ زمین حاصل کر لی گئی ہے۔ مہمند ڈیم کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس کی ابتدائی اسٹڈی 1969میں ہوئی تھی۔ 2002میں یہ پبلک پرائیویٹ پاٹنر شپ پے بننا تھا 2008میں واپڈا کو واپس منتقل ہوا 2017میں اس کے ڈیزائن کے ٹینڈر بنے اور 2019میں ایواڈ ہوا۔ اس ڈیم میں 1.29ملین ایکڑ فٹ پانی زخیرہ ہو گا اور اس کا کمانڈ ایئرا 16737ایکڑز ہے اس سے 800میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی اور پشاور کو 304ملین گیلن روزانہ پانی فراہم کیا جا سکے گا یہ منصوبہ پانچ سال آٹھ ماہ میں مکمل ہو گا۔ سینیٹر ہدایت اللہ نے کہا کہ مہمند، باجوڑ اور مالاکنڈ میں سیلاب کے دوران پل بہہ جاتے ہیں قائمہ کمیٹی نے اس حوالے سے خصوصی توجہ دینے کی ہدایت کر دی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ٹینڈر کیلئے 23کمپنیوں میں سے دو نے ٹینڈر میں حصہ لیا جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ معاملات میں پیپرا رولز کے مطابق سرانجام دے جائیں۔
اسلام آباد میٹرو بس سروس منصوبے کی تکمیل میں تاخیر اور اونر شپ کے معاملے کاکمیٹی اجلاس میں تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ انفراسٹرکچر کے حوالے سے معاملات این ایچ اے کے پاس ہیں اور اپریشنل کرنے کے حوالے سے سی ڈی اے کو طلب کیا گیا تھا۔سی ڈی اے حکام نے کہا کہ اُن کے پاس اتھارٹی نہیں ہے کہ اس کو چلا سکیں ایک آرڈینس بنا کر وزارت داخلہ کو جمع کرایا ہے جو وزارت قانون سے ویٹ ہو کر پارلیمنٹ ہاؤس میں پیش کیا جائے گا۔ ایک ماس ٹرانزٹ اتھارٹی بنانے کا کہا گیا ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اونر شپ کیلئے اتھارٹی بنانا ضروری ہے پنجاب ٹرانزٹ اتھارٹی سے درخواست کی گئی تھی مگر انہوں نے انکار کر دیا ہے جب تک فنڈنگ نہیں ہو گی بسیں نہیں خریدی جا سکتی۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ معاملات کو بہتر اندازمیں حل کر کے جلد سے جلد منصوبے کو مکمل کیا جائے تاکہ لوگ مستفید ہو سکیں۔
صوبہ سندھ کے پی ایس ڈی پی کے 2019-20کے پانی کے منصوبوں میں پیش رفت کے حوالے سے سیکرٹری زراعت صوبہ سندھ کی کمیٹی اجلاس میں عدم شرکت پر سخت برہمی کا اظہار کیا گیا اور آئندہ اجلاس میں اُن کی موجودگی میں معاملے کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایڈیشنل سیکرٹری وزارت زراعت صوبہ سندھ نے کمیٹی کو بتایا کہ انہوں نے ایک ہفتہ پہلے ہی چارج سنبھالا ہے کمیٹی نے معاملہ آئندہ اجلاس تک موخر کر دیا۔
کمیٹی کے آج کے ا جلاس میں سینیٹرز ہدایت اللہ، گیان چند،ڈاکٹر اسد اشرف، محمد عثمان خان کاکڑ، انجینئر رخسانہ زبیری کے علاوہ سیکرٹری وزارت منصوبہ بندی، ایڈیشنل سیکرٹری وزارت منصوبہ بندی، ممبر این ایچ اے، توانائی اور دیگر اداروں کے حکام نے شرکت کی۔
       

Shares: