باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں اسلام قبول کرکے پسند کی شادی کرنے کے کیس کی سماعت ہوئی،
آرزو اور علی اظہر کو عدالت میں پیش کردیا گیا،آرزو راجہ نے اپنا بیان دہراتے ہوئے کہا کہ میں نے مرضی سے نکاح کیا ہے،میری عمر 18 سال ہے،عدالت نے کہا کہ دستاویزات کے مطابق آپ کی عمر 18 سال سے کم ہے ،جسٹس کے کے آغا نے کہاکہ میڈیکل بورڈ بنے گا وہ آپ کی عمر کا فیصلہ کرے گا۔
بیرسٹر صلاح الدین نے وفاقی وزیرشیریں مزاری کی طرف سے وکالت نامہ جمع کرا دیا،وکیل نے کہا کہ لڑکی کہہ چکی ہے اسے اغوا نہیں کیا گیا،عدالت نے آرزو سے استفسار کیا آپ کو کسی نے اغوا کیا ہے؟، آرزو نے کہا کہ مجھے کسی نے اغوا نہیں کیا مجھے شوہر سے دور نہ کریں ، جسٹس کے کے آغا نے کہا کہ ہم سٹیپ بائی سٹیپ چلیں گے کسی جلدی میں نہیں ۔
جبران ناصر وکیل والدین نے عدالت میں کہا کہ لڑکی کی عمر کا تعین ضروری ہے،بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ گزارش ہے چیمبر میں بھی لڑکی کا بیان ریکارڈ کیا جائے، عدالت نے کہا کہ ہم باریک بینی سے جائزہ لیں گے اور جانچ کرائیں گے ، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ لڑکی کا بیان ریکارڈ نہ کیا جائے، وہ کم عمر ہے ،جسٹس کے کے آغا نے کہا کہ اگر وہ 18 سال کی ہے تو اس کا حق ہے جس کے ساتھ رہے ،اس نے خود کہا ہے اسے اغوا نہیں کیا گیا۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ہمارا کیس یہاں صرف ایف آئی آر ختم کرنے کا تھا جس پر عدالت نے کہا کہ اب معاملہ کچھ اور ہے ہمیں لڑکی کی عمر دیکھنی ہے
عدالت نے آرزو راجہ کی عمر کے تعین کیلئے میڈیکل بورڈ بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ آرزو کو لیڈی پولیس کی تحویل میں طبی معائنہ کیلئے لے جایا جائے،عدالت نے سیکرٹری ہیلتھ کو میڈیکل بورڈ بنانے کا حکم دیدیا،کیس کی مزید سماعت9 نومبر تک ملتوی کردی گئی ۔عمر کے تعین تک درخواست گزار شیلٹر ہوم میں رہیں گی
واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے سندھ حکومت آرزو راجہ کیس کے فیصلے پر نظر ثانی کے لیے عدالت سے رجوع کرے گی۔
بلاول نے کہا کہ آرزو راجہ کیس میں اگر معزز عدالت کو شبہات ہیں تو انہیں دور کیا جائے گا، سندھ حکومت اپنے دائرہ کار میں انصاف کی فراہمی کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی۔انہوں نے کہا کہ کم عمری میں شادی سے متعلق قانون پر عمل درآمد کے لیے ہر ممکن جدوجہد کریں گے۔
دوسری جانب ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے شواہد بتارہے ہیں کہ آرزو راجہ کم عمر ہے، اس کی شادی اور مذہب کی تبدیلی جبری طور پر کرائی گئی ہے، یہ ملکی قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے ۔
خیال رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کرے شادی کرنے والی آرزو فاطمہ کے کیس میں پولیس کو آرزو فاطمہ کے شوہر علی اظہر اور اس کے اہل خانہ کی گرفتار سے روک دیا۔
درخواست گزار آرزو نے مؤقف اختیا کیا تھا کہ ‘میرا تعلق عیسائی گھرانے سے تھا مگر بعد میں اسلام قبول کرلیا اور نام آرزو فاطمہ رکھا، میں نے اپنے گھر والواں کو بھی اسلام قبول کرنے کا کہا مگر انہوں نے انکار کردیا جبکہ میں نے بغیر کسی دباؤ کے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے.
آرزو اغوا یا قبول اسلام معمہ الجھ گیا لاہور احتجاج میں کر دی بڑی ڈیمانڈ
آرزو نے بتایا کہ اپنی مرضی سے علی اظہر سے پسند کی شادی کی ہے، پسند کی شادی کرنے پر میرے والد نے میرے شوہر کی پوری فیملی کے خلاف مقدمہ درج کرادیا ہے مقدمہ درج ہونے کے بعد پولیس کی جانب سے ہراساں کیا جارہا ہے۔