باغی ٹی وی کے مطابق سی ٹی او لاہورنے رنگ روڈ اتھارٹی میں بھیجنے کے لیے ٹریفک وارڈن رولز کے برخلاف 128 ٹریفک وارڈنز کی لسٹ تیار کرلی ہے اور ڈی آئی جی ٹریفک آ فس بھیج دی ہے جبکہ ٹریفک وارڈنز رولز 2017 کے تحت ٹریفک وارڈن پنجاب کے کسی بھی دوسرے ڈیپارٹمنٹ میں نا تو ٹرانسفر ہو سکتے ہیں اور نہ ہی آن ڈیپو ٹیشن جا سکتے ہیں۔جب 2012 میں شہبازشریف کے دور میں رنگ روڈ پر ٹریفک وارڈن کو بھیجا گیا تو اس کے لیے پنجاب کے دوسرے شہروں فیصل آباد ،راولپنڈی،گوجرانوالہ اور ملتان کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے رنگ روڈ پر جانیکے لیے درخواستیں طلب کی گئیں۔
اور باقاعدہ میرٹ پر لسٹیں بھی تیار کی گئیں اور انٹرویوز بھی لیے گئے۔
انٹرویوز لینے کے لیے باقاعدہ تب کے کمشنر لاہور ڈویژن کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی بنائی گئی تھی جس میں سابقہ CCPO ذوالفقار حمید، کمانڈنٹ رنگ روڈ پولیس اور ایک آفیسر S&JAD ڈیپارٹمینٹ سے لیا گیا تھا۔
لیکن اس دفعہ 128 ٹریفک وارڈنز کو بھیجنے کے لیے نہ تو کوئی واضح میرٹ پالیسی بتائی جارہی ہے اور نہ ہی لاہور کے علاوہ کسی دوسرے شہر سے درخواستیں طلب کی گئی ہیں۔۔۔
حالانکہ ابھی 2017 کے ٹریفک وارڈنز رولز کے تحت کوئی 1 بھی ٹریفک وارڈن ڈیپوٹیشن پر کسی دوسرے ڈیپارٹمنٹ میں نہیِں جا سکتا۔۔۔
اس کے علاوہ نئے ٹریفک وارڈنز کو رنگ روڈ میں لانے کی وجہ سے رنگ روڈ اتھارٹی پر پیسے کا بھی کافی بوجھ پڑے گا
Shares: