کراچی :پاک بحریہ کا 49 ہنگورڈے:دشمن پرایک بارپھرہیبت طاری ،اطلاعات کے مطابق آج پاک بحریہ 49 واں ہنگور ڈے منارہی ہے، یہ دن 71 کی پاک بھارت جنگ میں پاک بحریہ کی آبدوز ہنگور کی جانب سے بھارتی بحریہ کے جہاز آئی این ایس ککری کو سمندر برد کرنے کے عظیم کارنامے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔پاک بحریہ میں9 دسمبر بطور ہنگور ڈے منایا جاتا ہے۔
یہ دن 71 کی جنگ کے دوران پاک بحریہ کی آبدوز ہنگورکی بے مثال بہادری اور غیر متزلزل عزم کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ پاک بحریہ کی آبدوز ہنگور نے بھارتی بحریہ کے جہاز آئی این ایس ککری کو 9 دسمبر کے دن سمندر برد کر دیا تھا جس کی یاد میں ہرسال کی طرح اس سال بھی تقریبات کا اہتمام کیا گیا ہے۔
دنیا کی جنگی تاریخ کا اس عالی شان فتح یاب واقعے میں بھارتی جہاز کو ڈبونے کا یہ شاندار کارنامہ بھارت کے مغربی ساحل پر ڈیو ہیڈ(Diu Head) کے جنوب مشرق میں 30 میل دور وقوع پزیر ہوا تھا۔ یہ واقعہ بحری جنگی تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے کیونکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب کسی آبدوز نے ایک بحری جنگی جہاز کو کامیابی کے ساتھ نشانہ بنا کر سمندر برد کر دیا ہو۔
پاک بحریہ کی آبدوز ہنگور کے عملے کی اس بہادری کو سراہتے ہوئے 4 ستارہ جئرات، 6 تمغئۃ جرات اور 14 امتیازی اسناد سے نوازا گیا۔ یہ تعداد کے لحاظ سے پاک بحریہ کے کسی ایک یونٹ کو دیئے جانے والے بہادری کے تمغوں میں سب سے زیادہ ہیں۔
71 کی جنگ میں آبدورز ہنگور پاک بحریہ کا فخر رہی۔ مہمان خصوصی نے مزید کہا کہ آئی این ایس ککری کے ڈوبنے سے بھارتی بحریہ کو جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا جس میں ان کے 18 افسر اور 176 سیلر ہلاک ہوئے۔
غازی اور ہنگور دو ایسے نام ہیں جنہوں نے پاکستان سمیت پوری دنیا کی بحری افواج کے سامنے ہمت و جواں مردی ، ملک کے لیے قربانی اور پیشہ ورانہ صلاحیت کی لازوال داستانیں رقم کیں۔1965ء کی جنگ کے دوران بحری بیڑے میں موجود آبدوزوں کے باعث پاکستان کو ناپاک عزائم رکھنے والے بھارت کے مقابلے میں واضح سبقت حاصل تھی۔
جہا ں پاکستان کی بری فوج کے جوانوں نے زمینی راستے سے داخل ہونے پر دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا او رپاک فضائیہ کے طیارے دشمن کے مورچوں پر گولے برساتے رہے وہیںپاک بحریہ عوام کی نظروں سے اوجھل سمندر اور زیر سمندر اپنے مشن کی تکمیل کے لیے موجود تھیں۔ سب میرین غازی پاکستان بحریہ کی طرف سے تشکیل دی گئی بحری جنگی حکمت عملی کا اہم جزو تھی۔
ذرائع کے مطابق غازی کو بھارتی بندر گاہوں کے قریب زیر سمندر رہتے ہوئے دشمن اور اُس کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ غازی کئی دن تک ممبئی ہاربر کے قریب زیر سمندر موجود رہی اور بھارتی جنگی جہازوں اور باالخصوص طیارہ بردار جہاز وکرانت کی حرکات و سکنات کا بغور مشاہدہ کرتی رہی۔
پاکستان بحریہ کے بیڑے میں شامل آبدوزوں نے بھارتی بحریہ کو سمندر کے راستے کسی بھی قسم کی جارحانہ کارروائی کرنے سے روکے رکھا یہی وجہ تھی کے جنگ کے دوران بھی بھارتی جنگی جہاز ممبئی کا ساحل چھوڑنے سے گھبراتے رہے۔ بھارتی بحریہ کا یہی خوف پاکستان کے لیے کارگر ثابت ہوا اور پاکستان بحریہ نے اپنی آبدوز کی مدد سے بھارتی ساحلی مقام دوارکا پر حملہ کرتے ہوئے بھارتی بحری اثاثوں کو شدید نقصان پہنچایا۔ نہ صرف غازی نے بھارتی بحریہ کو 65 کی جنگ میں اُن کے جنگی منصوبوں کی تکمیل سے باز رکھا بلکہ 71ء کی جنگ میں بھی اپنی اسی تاریخ کو دہراتے ہوئے عقل کو دنگ کردینے والے معرکے سر انجام دیے۔
https://www.youtube.com/watch?v=ciIZ2Utk6Vo
مشرقی پاستان میں حالات کشیدہ ہونے کے ساتھ ہی غازی سب میرین کے کمانڈر کو ہیڈ کواٹر کی جانب سے بھارتی طیارہ بردار جہاز وکرانت کو ڈھونڈ کر تباہ کرنے کا حکم ملا۔ وکرانت بھارتی بحریہ کا وہ واحد سہارا تھا جس کے بل بوطہ پر وہ سمندر پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہی تھی۔ وکرانت کے پاکستانی آبدوز کے ہاتھوں نشانہ بننے کے خوف کے باعث بھارت طیار ہ بردار جہاز کو مغربی ساحلوں کی جانب لانے سے کترا تا رہا۔ تین ہزار مربع کلو میٹر کے وسیع علاقے میں تنِ تنہا دشمن کا مقابلہ کرنے کی ذمے داری انجام دیتے ہوئے غازی انتہائی خاموشی سے بنگال کے ساحل کے قریب پہنچ گئی جہاں بدقسمتی سے آبدوز کو ایک المناک حادثہ پیش آیاجس کے نتیجے میں غازی تباہ ہو گئی۔ لیکن شاطر دشمن نے غازی کو تباہ کرنیکی کی ذمے داری لینے کی ناکام کوشش کی۔ بعد میں ہونے والی چھان بین میں آبدوز کی تباہی کی اصل وجہ سامنے آئی جس کے بعد دشمن کو بین الاقوامی سطح پر جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑا۔ ملک سے دور ایک المناک حادثے کا شکار ہونے کے باوجود غازی کی ہمت اور بہادری کی داستان جو بظاہر نا ممکن لگتی ہے آج بھی ہمارے دلوں میں نقش ہے۔
ناقابلِ فراموش نقصان اُٹھانے کے باوجود پاکستان بحریہ نے اپنی دوسری آبدوز پی این ایس ایم ہنگور کو دشمن کے علاقے میں بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ حکم ملتے ہی ہنگور شارک کی مانند بھارتی مغربی ساحلوں کی جانب گامزن ہو گئی۔ ناسازگار حالات اور تکنیکی مسائل سے دوچار ہونے کے باوجود ہنگور دشمن کی نظروں میں آئے بغیر آگے بڑھتی رہی اور غازی کا ادھورا مشن مکمل کرنے کے لیے بالآخر 9 دسمبر 1971ء کو بھارتی بحری جہاز کے نہایت قریب پہنچ کر اُسے تباہ کرنے کے لیے پوزیشن سنبھال لی۔
ہنگور نے نشانے پر رکھے ہوئے جہاز کْکری پر یکے بعد دیگرے دو تار پیڈو داغے جس میں سے ایک نے بھارتی جہاز کو 2 حصوں میں تقسیم کر دیا اور محض دو منٹ کے دورانیے میں بھارتی جہاز عملے کے 200 لوگوں سمیت سمندر بُرد ہو گیا۔
ہنگور کا سفر یہاں تمام نہ ہوا بلکہ کْکری کے کچھ فاصلے پر موجود ایک اور بھارتی جہاز پر تیسرا تارپیڈو داغ دیا جس نے جہاز کو شدید نقصان پہنچایا۔ بھارتی جہاز کی تباہی جنگ عظیم دوم کے بعد دنیا بھر میں یہ پہلا واقعہ تھا کے کہ کسی آبدوز کی مدد سے بحری جہاز کو تباہ کیا گیا ہو جسے عالمی طور پر تسلیم کیا گیا۔ بین الاقوامی سطح پر اپنی شکست اور بھاری نقصان اُٹھانے پر بھارتی بحریہ میں کھلبلی مچ گئی اور بدلے کی غرض سے اپنے تمام وسائل اور وسیع بحری بیڑے کو ہنگور کی تلاش پر لگا دیا۔
دوسری طرف ہنگور آپریشن کی تکمیل کے بعد بوکھلائے ہوئے دشمن کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے خیر و با عافیت کراچی بندرکاہ پہنچ گئی۔ اس تاریخی کارنامے کے بدلے اس آبدوز اورعملے کوبڑے انعامات سے نوازا گیا ۔ یہ تعداد پاکستان بحریہ میں کسی بھی یونٹ کو دیے گئے تمغوں میں سب سے زیادہ ہے۔
اسی دن کی مناسبت کے حوالے سے کل پاکستان 49 واں ہنگورڈے منایا جارہا ہے ، اس موقع پر پوری قوم اپنے پاک افواج کے ساتھ ہیں اورقوم کی دعائیں بھی اپنے پاک افواج کے ساتھ ہیں








