لاہور:مولانا،مریم اوربلاول کی جم کربیٹنگ،کپتان کی حکمت عملی بھی کامیاب؛سخت سردی میں گرم گرم سیاست،اطلاعات کے مطابق آج پاکستان کے سنیئر صحافی معروف تجزیہ نگار مبشرلقمان نے پاکستان کی تازہ ترین سیاسی صورت حال پر زبردست تجزیہ کرتے ہوئے اہم انکشافات کیے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ آج عمران خان سے لے کر مولانا فضل الرحمان ، مریم اور بلاول نے سیاسی پچ پر خوب جم کر بیٹنگ کی ہے ۔ ملک میں اس وقت مینار پاکستان میں پانی ۔ ڈی جے بٹ کی گرفتاری اور استعفے سب سے بڑا ایشو بنے ہوئے ہیں ۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ پی ڈی ایم ماڈل ٹاؤن جیسا سانحہ کروانا چاہتی ہے تو کوئی حکومتی وزیر سوچے سمجھے بغیر اٹھ کر بیان داغ رہا ہے
مبشرلقمان کہتے ہیں کہ یاد ہوگا کہ 2018الیکشن میں آرٹی ایس سسٹم کے بیٹھ جانے سے ہم دسیوں سیٹیں ہار گئے تھے۔ اب پتہ نہیں فیاض الحسن نے جان بوجھ کر یہ بیان دیا ہے ۔ یا وہ کسی کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں یا پھر یہ ان کی نااہلی ہے جو خود حکومت ہی اس کام پر لگ گئی ہے کہ 2018الیکشن کو متنازعہ بنایا جائے ۔ پر ان سب چیزوں پر میں آپکو تفصیل سے بتاؤں گا ۔ مگر سب سے پہلے اس چیز پر روشنی ڈالوں گا اور آپکو سمجھاؤں گا کہ پی ڈی ایم کیوں چاہتی ہے کہ سینیٹ الیکشن سے پہلے ہی یہ حکومت گھر چلی جائے اور سسٹم کا بوریا بستر لپیٹ دیا جائے ۔ آپ دیکھیں اس وقت حکومت کے ہاتھ بندھے ہوئے اگر کوئی بھی legislationکرنی ہے تو حکومت مجبور ہے کہ اس کو اپر ہاوس میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی حمایت درکار ہوتی ہے ۔
سنیئر صحافی کہتےہیں کہ اب اگر سینیٹ الیکشن کے بعد پی ٹی آئی اور اتحادیوں کی سینیٹ الیکشن میں اکثریت ہوجاتی ہے تو وہ کوئی بھی قانون آسانی سے پاس کرواسکتی ہے ۔ یہاں تک بھی بات سمجھ نہیں آتی کہ پی ڈی ایم کو قانون سازی سے کیا مسئلہ ہو سکتاہے ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی جان سینیٹ کے طوطے میں اس لیے پھنسی ہوئی ہے کہ پی ڈی ایم کو یہ پتہ ہے کہ اگر عمران خان کی اکثریٹ سینیٹ میں آگئی تو پھر وہ وہ قانون سازی ہونی ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کی سیاست دور کی بات یہ سب اندر بھی جائیں گے اور سارا حساب کتاب اور حرام کا پیسہ بھی باہر نکالنا پڑ جانا ہے ۔ کیونکہ عمران خان کی کوئی بھی تقریر اٹھا لیں اس میں وہ دو چیز لازمی بتاتے ہیں ایک کرپشن کا خاتمہ اور دوسرا این آر او نہیں دوں گا ۔ تو جب عمران خان کے ہاتھ کھول جائیں گے تو گزشتہ تیس سال سے ان دو جماعتوں نے جو اپنے آپ کو سیف گارڈ کرنے کے قوانین بنا رکھے ہیں اور یہ جو بڑا سے بڑا ہاتھ مار کر بھی صاف بچ نکلتے ہیں وہ دراصل ان ہی قوانین میں ۔۔۔ لکونے ۔۔۔ اور چور راستے چھوڑے ہوئے ہیں جن کی مدد سے ان کو عدالتوں میں ریلیف مل جاتا ہے ۔ اب عمران خان اگر سینیٹ الیکشن جیت گئے تو پھر آپ یہ سمجھیں کہ ان کی سیاست اور دو نمبری کے تمام کاروبار بھی ختم ۔
انہوںنے کہا کہ اب بات کرتے ہیں تفصیل سے دوسرے ایشوز بارے ۔ آج مولانا فضل الرحمان نے بلاول اور مریم کو گھر پر بلایا ۔ اور بہت سے اہم ایشوز پر معاملات کو طے کیا گیا ۔ مولانا نے تو ایک بار پھر کہا کہ سٹیبلشمنٹ حکومت کی پشت پناہی کر رہی ہے ۔ یعنی وہ اگر ہٹ جائے تو اس حکومت کو ایک دن نہ چلنے دیں ۔ ساتھ ہی انھوں نے وہ ہی اپنا پرانا بیانیہ دہرایا کہ ملک میں جمہوریت نہیں ، آمریت ہے۔ لاہور میں جلسہ ہر صورت ہوگا۔ حکومت نے ایک راستہ روکا تو ہم دوسرا بنا لیں گے۔ استعفے ان کے سر پر مارنے کا مرحلہ بھی جلد آئے گا۔ ایک طرف کہتے ہیں جلسہ نہیں روکنا تو دوسری جانب پنجاب حکومت مینار پاکستان کو ڈیم بنا رہی ہے۔ تاہم ہم نے طے کیا ہے کہ مینار پاکستان میں جلسہ ہو کر رہے گا۔ تیرہ دسمبر لاہور کا تاریخی دن ہوگا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ہم سب عمران خان اور ان کے سہولت کاروں کو گھر بھیجنے کے لیے نکلے ہیں۔ ہم سب ایک پیج اور ایک سٹیج پر ہیں۔ پیپلز پارٹی کی سیاست سڑکوں پر ہی شروع ہوئی تھی۔ اسمبلیوں کے ذریعے اگر سینیٹ الیکشن ہوا تو وہ جعلی ہوگا۔ ہم نے پہلے ہی کہا تھا کہ جلسے بھی کریں گے اور استعفوں کا بھی کہا تھا۔ حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے ہر ہتھیار استعمال کرنے کو تیار ہیں۔
دوسری جانب مریم نواز کا کہنا تھا کہ ہمارے منصوبوں پر ہی یہ تختیاں لگا رہے ہیں۔ انہوں نے تو ابھی تک ایک اینٹ نہیں لگائی۔ انہوں نے بتایا کہ پارٹی قیادت کے پاس استعفے جمع کیے جائیں گے۔ انشاء اللہ مینار پاکستان میں بھرپور جلسہ ہوگا۔میرے خیال سے پی ڈی ایم نے جو کچھ کرنا تھا وہ طے ہوچکا ہے ۔ اب یہ روزانہ جو میڈیا ٹاک یا پریس کانفرنس ہوتی ہے اس کا مقصد صرف میڈیا اور عوام کو engageرکھنا ہے ۔ اور زیادہ سے زیادہ eye balls catchکرنا ہے ۔ یہ صاف نظر آرہا ہے کہ پی ڈی ایم کی تینوں بڑی جماعتیں ایک ہی پیج پر ہیں ۔ اور یہ جو استعفوں والی اور لانگ مارچ والی خبر چھوڑی گئی ہے ۔ یہ ایک تو اپنے ورکرز کا سیاسی مورال بلند رکھنا مقصد ہے دوسرا حکومت کی صفوں میں بھی بے چینی پیدا کرنا ہے ۔
مبشرلقمان کہتے ہیں کہ آپ دیکھیں گزشتہ چار دنوں سے وزیر اعظم عمران خان صاحب روزانہ کسی انٹرویو ۔ کسی افتتاح کسی میٹنگ ۔ کسی ملاقات میں پی ڈی ایم کو ٹارگٹ کر رہے ہیں اور یہ ہی پی ڈی ایم چاہتی ہے کہ اسکو اہمیت ملتی رہی اور ان کی سیاسی تحریک کا قد کھاٹ بڑھتا رہا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت حکومت سکون میں ہے اور اسکو پی ڈی ایم کے جلسوں سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا ہے یہ بات بھی بھی بالکل غلط ہے۔ اگر کرونا نہ ہوتا تو شاید یہ ممکن تھا مگر کرونا جس تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ سیاسی کے ساتھ اس وقت حکومت کے ہیلتھ اور انتظامی حوالے سے بھی مسائل بڑھتے محسوس ہو رہے ہیں ۔
مبشرلقمان کہتے ہیں کہ اس چیز کا اظہار عمران خان نے آج سیالکوٹ میں کیا بھی ہے جہاں ایک بار پھر اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ اپوزیشن مجھ پر تنقید کرتی تھی کہ مودی نے لاک ڈاؤن کیا پاکستان میں نہیں کیا جارہا۔ افسوس لاک ڈاؤن کے لیے تنقید کرنے والی اپوزیشن آج جلسےکر رہی ہے۔
۔ اسوقت پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی جانب سے استعفوں والے اعلان کے بعد اس میں تیزی آچکی ہے اور ہر ایم این اے اور ایم پی اے اپنیloyaltyپارٹی قیادت کوشو کروانا کے لیے دھڑا دھڑ استعفے جمع کروا رہا ہے ۔ تاکہ آنے والے جنرل الیکشن میں اپنی ٹکٹ پکی کی جاسکے
ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ کے اراکین تو اس سلسلے میں بازی لیے ہوئے ہیں مگر اب تو پیپلز پارٹی کے علی گیلانی نے بھی اپنا استعفی پارٹی لیڈرشپ کو بجھوا دیا ہے ۔ اس میں اب کوئی شک نہیں رہ گیا ہے کہ استعفی تو اکٹھے ہو ہی جائیں گے مگر سوال یہ ہے کہ ان استعفوں کا استعمال کب ہوگا اور اس کی ٹائمنگ کیا ہوگی ۔ یہ بڑا اہم ہے ۔ کیونکہ استعفی کو قبول کرنا سپیکر کی صوبدید ہوتی ہے ۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ یکمشت تمام استعفوں کوقبول کرلے ۔
مبشرلقمان کہتے ہیں کہ میرے خیال سے عمران خان جو بار بار کہتے ہیں جس نے استعفی دینا ہے دے دے ۔ ہم ضمنی الیکشن کروالیں گے تو اس حوالے سے جو چیز سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ حکومت اگر پانچ پانچ کرکے بھی استعفی مان لیتی ہے اور ساتھ ساتھ ضمنی الیکشن کرواتی جاتی ہے تو پھر اپوزیشن کی یہ والی اسٹریٹجی فیل ہوسکتی ہے اور شاید پیپلز پارٹی تو سندھ میں اپنی حکومت بھی گنوا سکتی ہے ۔ تو یہ تمام چیزیں اپوزیشن کے ذہن میں بھی ہوں گی ۔ اسی لیے وہ خبر تو نکال رہے ہیں مگر حتمی بات کوئی نہیں کررہے ہیں یعنی وہ پلان تو بتا رہے ہیں کہ ہم یہ کریں گے وہ کریں گے تاکہ حکومت پریشانی کا شکار ہو ۔ اور اس پریشانی میں کوئی غلطی کرے ۔ اور پھر وہ اس غلطی کو کیش کروائیں ۔
وہ مزید کہتے ہیںکہ مثال کے طور پر جو حکومت ملتان میں طاقت کا استعمال کرکے غلطی کرنے جا رہی تھی ۔ خدانخواستہ کوئی تصادم ہوتا تو نقصان سب سے زیادہ حکومت کا ہی ہونا تھا ۔ اسی طرح ایک اور خبر بہت زیادہ پھیلی ہوئی ہے اب پتہ نہیں یہ پی ڈی ایم نے خود پھیلائی ہے یا اس میں کوئی حقیقت ہے وہ یہ ہے حکومت مریم نواز کو دوبارہ جیل میں ڈال سکتی ہے ۔ اگر اس موقع پر ایسا ہوا ۔ تو پی ڈی ایم نے جیل بھرو تحریک بھی اپنے کارڈ ز میں رکھی ہے ۔ اور اگر ایسا ہو گیا تو حکومت کے لیے بڑی مشکل ہوسکتی ہے ۔
سنیئر صحافی کا مزید کہنا تھاکہ فی الحال یہ محسوس ہوتا ہے کہ لاہور کا جلسہ ہر حال میں ہو کر ہی رہے گا ۔ چاہے ڈی جے بٹ پکڑا جائے یا کوئی اور ۔۔۔ مینار پاکستان میں پانی چھوڑا جائے آندھی چلے یا طوفان آئے ۔ ن لیگ نے یہ جلسہ کرہی دینا ہے ۔ کیونکہ لاہور ن لیگ کی سیاست کا گڑھ ہے ۔ یہاں تک کہ آپ دیکھیں یہ بات بھی لاہور سے ہی نکلی تھی کہ کھاتا ہے تو لگتا بھی ہے ۔ اس لیے اب یہ پی ٹی آئی اور پنجاب حکومت کا اصل امتحان ہے کہ وہ اس جلسے کو کس طرحtackle کرتی ہے ۔ اگر کوئی بدمزگی پیدا ہوئی تو اس کی سیاسی قیمت حکومت کو ہی اداکرنی پڑی گی ۔ کیونکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم خود چاہتی ہے کہ کچھ بڑا ہو یا کچھ خراب ہو ۔ جس کو بنیاد بنا کر وہ حکومت کو مزید under pressureلے کرآئیں ۔