لاہور:پاکستان سعودی عرب کے تعلقات میں‌ نیا موڑ:ذمہ دارکون ؟عمران خان یا سعودی شاہی خاندان،اطلاعات کے مطابق سعودی شہزادے نے عمران خان کو فون کرتے ہوئے محمد بن سلمان اورسلمان بن عبدالعزیز کا سلام پہنچاتے ہوئے اس بات کی خواہش کا بھی اظہارکیا کہ جناب تشریف لائیں

سعودی شہزادے کا عمران خان کو فون کرنا کوئی روایتی نہیں بلکہ ایک طئے شدہ منصوبے کا حصہ ہے ، یہ بات بھی یادرکھیں کہ عمران خان کو فون کرنے سے پہلے شہزادہ سلطان بن سلمان بن عبدالعزیز کی شہزادہ محمد بن سلمان سے اورایسے ہی سلمان بن عبدالعزیز سے بات چیت ہوتی ہے، یہ ٹائمنگ بتاتی ہےکہ عمران خان کو فون کیا نہیں بلکہ کروا یا گیا اوراس بات کی خواہش کا اظہار کرنا کہ جناب ہمیں بھی خدمت کا موقع دیں یہ ایک قریب ہونےکا اشارہ کرتا ہے

اگر دوسری طرف دیکھا جائے تو اس ٹیلی فون کال کا اسباب کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے، پاکستان جو کہ سعودی سرزمین ، سعودی حکمرانوں اورسعودی عوام کی دل کہ گہرائیوں‌سے نہ صرف عزت کرتا ہے بلکہ اسے اپنے اوپرفرض بھی گردانتا ہے

ویسے تو پاکستان اورسعودی عرب کے درمیان کےتعلقات کی ایک ناقابل فراموش تاریخ بھی موجود ہے ،

اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب نے جہاں‌دنیا کے دیگرمسلمان ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرکے وہاں اخوت کا مظاہرہ کیا ہے وہ پاکستان میں بھی دیکھنے میں ملا ہے

پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی جتنی سعودی عرب کی طرف سے ہے اس سے دگنی گرم جوشی اوروابستگی پاکستان کی طرف سے ہے جو ایک فطری اورایمان کا تقاضا بھی ہے

اگرسعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ مشکل وقت میں تعاون کیا ہے تو یاد رکھیں کہ پاکستان نے سعودی عرب کے ساتھ وہ عہد نبھائے ہیں کہ جن کی قیمت انسان نہیں دے سکتے بس اس کا اجراللہ ہی دے گا

یہ بڑی راز کی باتیں ہیں کہ پاکستان نے اپنی سلامتی کوخطرے میں ڈالتے ہوئے سعودی عرب کی سلامتی کو ترجیح دی یہ کسی پراحسان نہیں بلکہ ایمانی فریضہ تھا

یہ بات بھی یاد رکھین کہ عربوں خصوصا سعودی عرب کے دشمنوں کو اگرڈر ہے تو فقط پاکستان کا

تفصیل میں نہیں جانا چاہتا صرف موجودہ حالات کے حوالے سے عرض گزار ہوں‌کہ پاکستان کی طرف سے اس قدر شدید محبت اوروابستگی کے باوجود ان عرب ممالک نے پاکستان کی خدمات ، قربانیوں کو فراموش کرتے ہوئے کشمیر کے معاملے پرکشمیری مسلمانوں پرہونے والے مظالم پرمسلمانوں کے دشمن ، کشمیریوں کے دشمن ، اسرائیل کے جانی دوست بھارت کا بھرپورساتھ دیا

پاکستان نے کبھی اپنی حفاظت کے لیے ان ممالک سے درخواست نہیں کہ اور نہ ہی یہ ممالک اس لائق ہیں ،

دوسرا اہم موڑ ابھی چند ماہ قبل آیا جب چند عرب ممالک جو کہ سعودی عرب کے بچونگڑے جانے جاتے ہیں نے اسرائیل کوتسلیم کرلیا ، پاکستان نے اس وقت عرب ممالک خصوصا سعودی عرب کو اس حوالے سے سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ یہودونصاریٰ مسلمانوں کے دشمن نہیں ہوسکتے اللہ اوراس کے رسول کا یہ فرمان ہے

سعودی عرب نے پاکستان کے اس مخلصانہ مشورے کو نہ صرف کمتر سمجھا بلکہ اسے اپنے معاملات میں مداخلت سے تعبیر کیا ، ایسے ہی عرب امارات نے بھی وہ رویہ پیش کیا جوسعودی عرب نے پیش کیا

اس موقع پرپاک فوج کے سربراہ نے بھی کوشش کی اور ان کو سمجھایا کہ پاکستان کا اسرائیل سے کوئی زمینی تنازعہ نہیں پاکستان عربوں خصوصا ارض فلسطین پرقبضے کی وجہ سے اسرائیل کو تسلیم نہیں کررہا یہ موقع ہے اتفاق سے چلنے کا تاکہ فلسطینیوں کی جدوجہد اورقربانیوں کو حقیقت میں بدلا جاسکے لیکن سعودی عرب کی طرف سے اس حوالے سے "آپ کون ہوتے ہیں ہمارے معاملات میں مداخلت کرنے والے ” جیسا رویہ اختیار کیا گیا

اس کے بعد وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اسرائیل کوتسلیم کرنے کے حوالے سے اپنا اوراہل پاکستان کا موقف رکھتے ہوئے کہا کہ اگراسرائیل کو تسلیم کریں گے تو کل اللہ کو کیا جواب دیں گے

وزیراعظم کے اس اصولی موقف نے ان لوگوں کی زبانیں بند کردیں جو وزیراعظم عمران خان کو یہودی ہونے کا الزام دھرتےرہے ،

اس دوران سعودی عرب نے ایف اے ٹی ایف میں ووٹ ناں‌دیکر اپنا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈال کرپاکستان کی سلامتی کو درپیش خطرات کو قوت بخشی

پاکستان نے اس بربھی صبر کا مظاہرہ کیا

پھر کیا ہوا جہاں سے یہ تنازعہ شدت اختیار کرتا ہے ؟

اسرائیل ،،امریکہ ، بھارت اورایسے ہی اسرائیل کوتسلیم کرنے والے ممالک نے اس بات کے خطرات کو بھانپا کہ جب تک پاکستان اسرائیل کوتسلیم نہیں کرتا ، عربوں‌ اوراسرائیل کے درمیان تعلقات کو خطرات ہی رہیں‌گے

دوسری طرف بھارت نے بھی اسی اصول کے تحت کہ پاکستان اسرائیل کوتسلیم کرے گا تو اس کے اندر حکومت کے خلاف اس عمل پر ایک خطرناک تحریک کھڑی ہوسکتی ہے اس کا لامحالا فائدہ بھی بھارت کوہوگا

دوسرا بھارت اورامریکہ بھی یہی خیال کرتے ہیں‌کہ جب تک پاکستان اسرائیل کوتسلیم نہیں کرتا اسرائیل کے لیے خطرات بدستور رہیں گے جو کہ نہ تو امریکہ اورنہ ہی بھارت کےلیے اچھے شگون ہیں

اس دوران ہوتا یہ ہے کہ سعودی عرب پاکستان کے ساتھ ایک کارڈ کھیلنے کی کوشش کرتا ہے وہ کارڈ پاکستان کو دوسال قبل دوارب ڈالرزقرض کے حوالے سے بلیک ملینگ تھی

سعودی عرب کا خیال تھا کہ پاکستان معاشی طور پرکمزور ہے اوروہ ہمارا قرض ادا کرنے کی ہمت نہیں رکھتا اس صورت میں پاکستان کو اسرائیل کوتسلیم کرنے پرمجبور کیا جاسکتا یا پھر یہ اسرائیل کوتسلیم کرنے والے ممالک کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے سے روکا جاسکتا ہے

اس حوالے سے پاکستان پردباو بڑھایا گیا ، یہ دباو جس کا ذکرپاکستان کے معروف صحافی مبشرلقمان بھی اس کا ذکرکرچکے ہیں ایک حقیقت تھی

اسی دوران پاکستان کی مجبوری کو سمجھتے ہوئے چین نے بڑی حکمت سے کام لیا اوریہ قرض اداکرنے کی ذمہ داری کچھ باہمی مشاورت سے لی چین پاکستان کو دیئے گئے قرض کی واپسی کے حوالے سے پاکستان کوریلیف دینے پرتیارہوگیا اورپاکستان سعودی عرب کو قرض واپس کرنے پر تیار ہوگیا اوریہ اگلے ہفتے ادا کردیا جائے گا

ادھر اس دوران ایران نے پاکستان اورسعودی عرب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اورایرانی وزیرخارجہ دودن پاکستان میں رہے اوریہ خلیج پرکرنے کی کوشش کرتے رہے

دوسری طرف وزیراعظم عمران خان کے دلیرانہ موقف اوربرابری کی سطح کے رویے نے سعودی عرب کی آنکھیں کھول دیں‌ کہ یہ کیا ہوگیا ،
سعودی عرب اس بات سے بھی پریشان ہے کہ پاکستان کو اب کیسے اعتماد دیں‌گے سعودی عرب شاید قرض کی اس مدت میں توسییع بھی کرنا چاہتا ہے لیکن اب حکومت ٕپاکستان کی طرف سے اس رقم کو ہرصورت جلد واپس کرنے کے فیصلے نے سعودی عرب کی اس پیش کش کو بھی کیش نہیں ہونے دیا

بات شروع ہوئی تھی کہ ذمہ دارکون ؟اس ساری صورت حال کا ذمہ دارسعودی عرب ہے سعودی عرب کے بچونگڑے سعودی عرب کی ہدایت پراسرائیل کو تسلیم کررہے ہیں ،، سعودی عرب ان تعلقات پرمہرثبت کرنے کے لیے پاکستان کواستعمال کرنا چاہتا تھا ناکام ہوگیا ، وزیراعظم عمران خان کے دلیرانہ موقف نے پاکستانی قوم کو بھی تقسیم ہونے سے بچایا اوراپنے بنیادی مطالبے کو بھی زندہ رکھا

سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان جن پرامریکی اثرورسوخ ہے وہ پاکستان کے حوالے سے وہ موقف اورہمدردی نہیں رکھتے جو پاکستان اورپاکستانیوں کا حق تھا

اب حکومت کی طرف سے اپنے موقف پرقائم رہنے کے عمل نے سعودی عرب کو احساس دلایا ہے کہ اگراس نے پاکستان کی فطری مدد اورمحبت کو کھودیا توپھراس کے لیے ایسی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں جوبہت بڑے نقصان کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں

آج شہزادہ سلطان بن سلمان بن عبدالعزیزکا عمران خان کو فون کرنے کا مقصد بھی یہی تھا اوراس سے پہلے محمد بن سلمان اورسلمان بن عبدالعزیز سے شہزادہ سلطان کا ر ابطہ کرنا اس بات کے واضح اشارے ہیں‌ کہ سعودی حکمران یہ جان چکے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کی گرم جوشی اس کی داخلی اورخارجی سلامتی کے لیے ضروری ہے ، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آنے والےلمحوں‌ میں ملاقاتوں کا یہ سلسلہ شروع ہوجائے جس کے ذریعےپاکستان اورسعودی عرب کے درمیان حالات کو نارمل کرنے کے حوالے سے کوششیں کی جائیں ،یہ ملاقاتیں عسکری قیادت سے بھی ہوسکتی ہیں ، مختلف اندازسے سفارتی کوششیں بھی بروئے کار لائی جاسکتی ہیں

Shares: