پیپر:کرونا وائرس سے لڑنے کے لیے گدھی کا دودھ اکسیر:9 ہزارفی لیٹرفروخت ہونے لگا ،اطلاعات کے مطابق یورپ سمیت کئی دیگرملکوں میں کرونا وائرس کے خلاف اکیسر کے طورپرگدھی کا دودھ بطورعلاج استعمال ہونے لگا،

جہاں ایک طرف دنیا عالمی وبا کرونا وائرس کے دنوں میں صحت کے بارے میں حساس ہے اور توانائی سے بھرپور غذا ان کی ترجیح ہے۔ ایسے میں البانیہ میں گدھی کے دودھ کی طلب میں زبردست اضافہ ہو رہا ہے۔

خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق گدھی کے دودھ کے حصول کے لیے باڑوں پر شہریوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ کیوں کہ مقامی افراد اس دودھ کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ یہ وٹامنز سے بھرپور ہے اور انسان کے مدافعتی نظام کو مضبوط بناتا ہے۔

ایک فارم پر گدھوں کی افزائش کی جا رہی ہے۔ جب کہ گدھی کے دودھ کے خریداروں کا ایک ہجوم ایک بوتل کے حصول کے لیے اس فارم کے باہر موجود ہوتا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق البانیہ میں بہت سے لوگ اپنی صحت کو بہتر رکھنے کے جتن کرتے نظر آتے ہیں۔

پیپر نامی گاؤں کے ایک چھوٹے سے فارم میں درجنوں چوپائے موجود ہیں۔ فارم کے 37 سالہ مینیجر ایلٹن ککیا کا کہنا ہے کہ گدھی کے دودھ کی طلب میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

دودھ کی طلب میں اضافہ گدھوں کی افزائش کرنے والوں کے لیے اچھی خبر ثابت ہوئی ہے۔ جب کہ گدھوں کو بھی اب آرام دہ ماحول میں باڑوں میں رکھا جا رہا ہے۔ جب کہ بوجھ اٹھانے اور بار برداری جیسا روایتی مشکل کام ان سے نہیں لیا جا رہا۔

البانیہ میں گدھے سے عام طور پر پہاڑی راستوں پر بھاری بھر کم گدھا گاڑیاں کھینچنے کا کام لیا جاتا ہے۔

ایلٹن ککیا کا کہنا ہے کہ اس سخت کام کے باوجود گدھا ایک نفیس جانور ہے۔ جب کہ گدھی سے دودھ کے حصول کے لیے اس کو محبت اور نرمی کی ضرورت رہتی ہے۔

ایلٹن ککیا نے دو سال قبل صحافت کو خیرباد کہا تھا اور خاندانی باڑہ سنبھال لیا تھا۔ دودھ کے حصول کے مقصد سے البانیہ میں گدھوں کی افزائش کے صرف دو باڑے ہیں جن میں سے ایک ایلٹن ککیا کی ملکیت ہے۔

البانیہ میں گدھے کے دودھ کی فی لیٹر قیمت 50 یورو (لگ بھگ ساڑھے نو ہزار پاکستانی روپے) ہے۔

ایک ایسے ملک میں جہاں میں اوسط آمدن 400 یوروز ہو۔ وہاں یہ قیمت بہت زیادہ ہے۔ لیکن کرونا کے خوف کے سبب گدھی کے دودھ کی طلب میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

اگرچہ کوئی بھی شخص گدھی کے دودھ کو کرونا وائرس کا علاج ہونے کا دعویٰ نہیں کر رہا۔ لیکن کئی لوگ اس دودھ میں موجود غذائیت کے قائل ہیں۔

کلیا یامیری ایگرو انوائرمنٹل انجینئرنگ کی طالبہ ہیں۔ وہ پیپر گاؤں آئیں تاکہ کرونا وائرس سے متاثرہ والدین کے لیے گدھی کے دودھ کی دو بوتلیں خرید سکیں۔

کلیا یامیری نے خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ سے گفتگو میں کہا کہ ادویات کے ساتھ ساتھ گدھی کا دودھ نظام تنفس کے لیے فطری دوا ہے۔

Shares: