یہ بدبو آخر کب ختم ہو گی؟ از قلم غنی محمود قصوری

0
37

یہ بدبو آخر کب ختم ہو گی؟

ازقلم غنی محمود قصوری

پرانے زمانے کی بات ہے ایک شہر میں نازک سی مگر زبان کی تیز طراز لڑکی رہتی تھی جسے گوبر سے سخت نفرت تھی
وہ ہمیشہ اپنی ماں سے کہا کرتی تھی میں شادی وہاں کراؤ گی جس گھر میں گوبر کے اپلوں کی بجائے لکڑی جلائی جاتی ہوں
وقت گزرتا گیا اور اس کے لئے رشتے آتے رہے مگر جہیز کی ڈیمانڈ پورا نا کر سکنے پر رشتے والے جواب دیتے گئے آخر کار ایک دن ایک دور دراز گاؤں سے رشتہ آیا جو جہیز نا لینے پر بھی راضی تھے سو اس لڑکی کے والدین نے اس کا رشتہ پکہ کر دیا جس کا اس لڑکی کو سخت دکھ ہوا کیونکہ وہ گاؤں کی بجائے شہر میں شادی کروانا چاہتی تھی کیونکہ شہر میں زیادہ تر لکڑی جلائی جاتی تھی
وقت گزرا اور اس کی شادی ہو گئی بیاہ کر وہ اپنے شوہر کے گھر آ گئی جو کہ غریب تھے
اس کی ساس کسی چوہدری کے گھر جا کر اپلے بناتی اور گھر کا چولہا جلاتی
چند دن گزرنے کے بعد اس کی ساس نے کہا کہ تم بھی میرے ساتھ چلو اور چل کر اپلے بناؤ تاکہ میری اپلے بنانے میں مدد ہو سکے جس پر اس بدبو سے نفرت کرنے والی لڑکی نے فوری انکار کرتے ہوئے بدبو سے طبیعت خراب ہونے کا بہانہ کیا
ساس سمجھدار تھی معاملے کی نزاکت کو سمجھتی تھی اور گھر کا ماحول بھی خراب نہیں کرنا چاہتی تھی آخر اس نے بھی اپلے نا بنانے کا تہیہ کرلیا جب تک کہ بہو ساتھ نا چلے
اس کی ساس نے اسے اس دن روٹی نا دی سو بھوک سے نڈھال بیچاری اگلے دن اپلے بنانے چلی گئی اور ناک پر کپڑا رکھ کر بولی کہ کتنی گندی بدبو ہے اس بدبو سے مجھے الٹی آتی ہے میں اس بدبو سے بیمار ہو جاؤنگی غرضیکہ اس نے سو طرح کے بہانے کئے میں اس کی ایک نا چلی اسے آخر کار اپلے بنانے ہی پڑے
وہ روز اپنی ساس کیساتھ اپلے بنانے جاتی اور سو نخرے کرتی
رفتہ رفتہ اس کے نخرے کم ہونے لگی اور ایک دن اپنی ساس سے کہنے لگی دیکھا جب سے میں آئی ہوں یہاں اپلے بنانے تب سے گوبر میں سے بدبو آنا ختم ہو گئی ہے کیونکہ میں اپلے اچھے بناتی ہوں
اس کی اس بات پر اس کی ساس تھوڑا ہنسی اور بولی تمہارے آنے سے گوبر کی بدبو نہیں گئی بلکہ تمہیں اس کی بدبو سونگنے کی عادت ہو گئی ہے اب تمہیں اس بدبو کا احساس نہیں ہوتا کیونکہ اب تم اس بدبو کو قبول کر چکی ہو یہ بدںو ختم نہیں ہوئی بلکہ تمہاری اپنی بدبو مر چکی ہے
اسی لڑکی جیسا حال ہمارے عمران خان صاحب کا بھی ہے جو بطور اپوزیشن لیڈر مہنگائی،بے روزگاری،امن و امان کی ابتر صورتحال،ذخیرہ اندوزی اور دیگر معاشرتی برائیوں کا رونا رویا کرتے تھے اور لوگوں کو سٹیج پر کہا کرتے تھے کہ میں اس بدبو کو ختم کرونگا مگر اب اس لڑکی کی طرح اپنی بدںو کو مار بیٹھے اور اپوزیشن و عوام کو سبق دے رہے ہیں کہ میرے آنے سے یہ بدبو مر گئی حالانکہ خود خان صاحب اس بدبو کا حصہ بن چکے ہیں اور اس مہنگائی،بے روزگاری کی بدبو کو سونگھنے سے قاصر ہو چکے ہیں
افسوس کہ اس سے قبل بھی سارے لیڈر اس بدبو کو ختم کرنے کا کہہ کر اس بدبو کا حصہ بن گئے اور اپوزیشن میں جاتے ہی انہیں پھر وہی بدبو آنے لگتی ہے
ان سیاستدانوں کے وعدوں کی بدبو پر عوام پوچھتی ہے کہ یہ بدبو آخر کب ختم ہو گی؟

Leave a reply