براڈ شیٹ کیس کا اصل مجرم کون ، خطرے کی گھنٹی بج گئی ، مبشر لقمان کا نیا وی لاگ

باغی ٹی وی رپورٹ کے مطابق : سینئر اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس وقت ایک بڑے لیول کی جےآئی ٹی بننی چاہیے جس کا کام یہ ہو گا کہ وہ نیب کی انویسٹی گیشن کرے گی. انہوں نے کہا کہ نیب جب سے بنی ہے پرویز مشرف کے دور سے تب سے لیکر اب تک جتنے اس کے چیئرمین بنے جتنے ڈائریکٹرز اور ریجنل ذمہ دار بنے سب کی تحقیق ہونی چاہیے تاکہ پتا چلے کہ تب سے لے کر کیا کچھ حاصل کیا اور کتنی قوم کی لوٹی ہوئی رقم واپس خزانے میں لائی . اس طرح انہوں نے کتنی مراعات حاصل کیں

ان کا کہنا تھا کیا نیب یہ کام ہی کیا وی آر کا قانون کے تحت وو نٹیئر ری کانسلی ایشن کے تحت کچھ رقم وصول کی کہ جس کے تحت آپ آئیں اور اتنا مان جائیں‌ اور باقی اپنے پاس رکھ لیں. آپ دھل کر پاک ہوگئے ہیں . اور اس وی آر قانون کے تحت کتنا مال نیب نے خود رکھا اور کتنا قومی خزانے میں جمع کرایا.

انہوں نے کہا کہ براڈ شیٹ ایک ایسا مسئلہ ہے جو پانامہ کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا. براڈ شیٹ کا جو مسئلہ ہے ہمیں اس پر تین لیول پر مسئلہ نظر آتا ہے . اس پر بڑے لوگ گفتکو کر چکے ہیں اور عام الفاظ میں آپ چند چیزیں سمجھاتا ہوں. جنرل مشرف نے جب یہ کہا ہم لوٹی ہوئی دولت ملک کے اندر واپس لے کر آئیں گے . اب ہوتا یہ ہے کہ اس وقت کے نیب کے چیئرمین باہر جاتے ہیں اور اس شخص سے معاہدہ کر لیتے ہیں.

لیکن یہ معاہدہ ایسی کمیٹی کے ذریعے ہوتا ہے جو دو نبمبر ہوتی ہے اس کے کچھ اشوز ہیں اور اس کا کو ملک ہے وہ جیل بھی جاتا ہے . اس پر عدالت کی گستاخی بھی ثابت ہے اور وہ جیل سے بھاگا ہوا بھی تھا. یہ دوسرے بھائی صاحب جوجیمز تھے انہوں نے آئل آف مین تھے کمپنی کھولی . اور کہا کہ یہ کمپنی ہے جو آپ کے لوٹے ہوئے پیسے ڈھونڈے گی. اس کمپنی کے ساتھ ایک کنٹریکٹ کر لیا .

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ اس کنٹریکت میں‌ کافی شبہات تھے کہ کتنا پیسا لینا ہے ، کہاں سے لینا ہے . کیا کچھ معاہدات ہیں اور کتنا واپس کرنا ہے .نیب نے طے کیا جتنا بھی واپس لا کر دو گے اس کا بیس فیصد آپ کو دیا جائے گا.نیب نے یہ سمجھا کہ جو ان کے ذریعے ریکور کر رہے ہیں اس کا بیس فیصد دینا ہے . اور کمپنی کا خیال تھا کہ جو پاکستان کے اندر بھی نیب لے رہی ہے وہ بھی ہم نے بیس فیصد کے حساب سے لینا ہے .
اب اس معاہدے میں ایگزٹ کے سلسلے میں کوئی کلاز نہیں تھی . اور وکلا نے جب دیکھا تو اس پر معاہدے میں ایس. شق نہیں‌تھی. نیب نے جب یہ ٹرمینیٹ کیا تھا کمپنی نے مقدمہ کردیا کہ آپ اس کے مجاز ہی نہیں ہیں. اب اس حوالے سے ایک ثالث مقرر کیا گیا جس نے 2016 میں کمپنی کے حق میں فیصلہ دے دیا.

انہوں نے مزید کہا کہ اب یہ جیمز جو بھاگا ہوا تھا اس نے امریکا میں جاکر براڈ شیٹ کمپنی رجسٹر کی پھر اس نے مطالبہ کیا نیب نے کہا کہ تم ہم سے پرسو نہ کرو ہم سے کچھ دے لے کر لو . نیب نے ڈیڑھ ملین ڈالر پر طے کر لیا . لیکن جو اصل براڈ شیٹ تھی اس کے اصل شیئر ہولڈر بھی تھے . مساوی ساحب جس کے انٹرویو آپ سنتے ہیں. انہوں نے کہا مسٹر جیمز ڈیڑھ ملین کا چونا لگا گیا ہے ہم کیوں نہ اپنا حصہ لیں‌. انہوں‌ نے کیس کردیا نیب نے یہ کیس فیس کیا اور ثالث یا آربیٹریٹر نے چونکہ براڈ شیٹ کے حق میں فیصلہ دیا تھا اس لیے نیب کورٹ میں مقدمہ ہار گئی.

جب کیس ہارے تو انہوں‌ نے وکلا کی فیس بھی ان پر ڈال دی سو لینے کے دینے پڑ گئے . وہ عدالت میں‌ گئے اور کہاں کہ برطانیہ میں‌ پاکستان ہائی کمیشن کے کسی بینک میں پیسے پڑے ہیں تو ہمیں دلوائےجائیں یو بی ایل میں ان کے پیسے کمپنی کو دلو دیے گئے. معاملہ یہاں تک ہی نیں رکا بلکہ مساوی نے مزید مطالبہ کیا کہ جن لوگوں پر این آر او کے ذریعے مقدمات رکے تھے وہ پیسےبھی ان کو دیے جائیں اور اسی طرح پاکستان کے اندر جتنا پیسہ وصول ہوا ہے اس کا بھی بیس فیصد براڈ شیٹ کو دیا جائے .

اب یہ سارا معاملہ دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی کی وجہ بنا ہوا . اس سارے معاملے میں نیب اور براڈ شیٹ پر جے آئی ٹی بننی چاہیے اور اس میں تمام نیب کے تمام کردار کو سامنے لاتے ہوئے فیصلہ ہونا چاہیے.

Shares: