ہمیں فکری لحاظ سے بالغ ہونے کی ضرورت ہے…!!!
(بقلم:جویریہ بتول)
قوم کی مضبوطی کا انحصار صرف معاشی برتری یا بلند و بالا عمارات پر ہی نہیں ہوتا بلکہ فکری بلوغت اور دور اندیشی سے مالا مال اقوام ہر دور اور ہر وقت میں خود کو کامیاب بنا سکتی ہیں…وہ چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت کے ساتھ ہر مشکل گھڑی سے گزر سکتے ہیں… لیکن فکر و شعور کی کمی اکثر مادی مضبوطی پر بھی حاوی ہو جاتی ہے…جب وسائل کی نگہداشت،منصفانہ استعمال اور انہیں بروئے کار لانے کا شعور ہی قوم کو نہ ملے…!
ایک معاشرہ اُس وقت تک نہیں سدھر سکتا جب تک اُس کے تمام طبقات،اکثریت،اقلیت اپنے اپنے فرائض و حقوق کا شعور حاصل نہیں کرتے…!!
وہ حکمران طبقہ ہو یا دیگر ادارے یا اُن میں کام کرنے والے ملازمین…جب تک سب شعور کی دولت سے تہی دست اور ذاتی مفادات کے چکر میں گھومنے والے لٹو بنیں رہیں گے…اُس وقت تک نا انصافی، شکایتیں،بغاوت اور غلط فہمیاں جنم لیتی رہیں گی…
کہیں فرائض کی غفلت ہوتی ہے جو عتاب اور کہیں حقوق کی کمی بغاوت کی وجہ بن جاتی ہے.
ریاست کی مضبوطی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کے تمام لوگوں کی خیر خواہ اور شیلٹر بنے…
ہم سب اکثر ایک ریاست کا ذکر کرتے رہتے ہیں اور اپنی روحانی وابستگی کا یقین دلانے کے لیے اُس کامیاب سٹیٹ کا حوالہ دیتے ہیں…یعنی”ریاستِ مدینہ”
لیکن وہ ریاست کامیاب کیسے ہوئی کہ تئیس سال کے قلیل عرصہ میں جس سے قیصر و کسریٰ کے گنبد لرزنے لگے؟
وجہ حقوق و انصاف کی یکساں فراہمی،ظلم و جبر کا فوری خاتمہ،عملی تربیت و احتساب کا اہتمام…تقویٰ و جوابدہی کے احساس کا شعور…انسانی حقوق کی پاسداری و مساوات کا لحاظ…حقوق اللّٰہ کی ادائیگی و حدود اللّٰہ کا نفاذ تھا یہی وجہ تھی کہ وہ اوّلین ریاست دنیا کی کامیاب ترین ریاست اور رہتی دنیا تک کے لیے انمٹ مثال بن گئی…جسے مستشرقین نے بھی داد و تحسین پیش کی اور کہا کہ وہ محمدﷺ تھے جنہوں نے دین اور دنیا ہر دو محاذوں پر قلیل وقت میں کامیابی حاصل کی…اور اسی نقشِ قدم پر آپ کے اصحاب و خلفاء نے بھی عمل کیا…!!!
ہمارا المیہ یہ ہے کہ چوہتر سالوں میں ہم ایک ہی رونا روتے اور سنتے آئے ہیں کہ جانے والے ظالم ہیں اور آنے والے عادل…
پھر کُچھ وقت بعد وہی دودھ کے دُھلے بن کر سامنے آ جاتے ہیں…
عوام بیچاری کی اگر کوئی حیثیت کسی کی نظر میں ہوتی بھی ہے تو وہ ووٹ بنک سے زیادہ ہر گز نہیں…پانچ سالوں میں مسائل کی فہرستیں ہی تیار نہیں ہو پاتیں کہ اور عوام یہی رونا روتی رہ جاتی ہے کہ ووٹ لے کر ہمیں بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا…!!!
ریاست چوں کہ ماں کی طرح ہوتی ہے اور اُس سے کسی بھی بچے کا رونا برداشت نہیں ہوتا اس لیے وہ بیک وقت سب کی ضروریات کا خیال رکھتی اور اسباب مہیا کرنے کی جستجو میں رہتی ہے…لیکن اگر ریاست کا مقصد مخصوص اور محدود بنا دیا جائے تو مسائل کی شروعات وہاں سے ہوتی ہیں…اور پھر بچے ماں پر عدم انصاف اور کسی ایک طرف جھکاؤ کا الزام بھی لگانے لگتے ہیں-
ہمارے ہاں ہوتا یہ رہا ہے کہ ایوانوں سے باہر رہنے والے ہمیشہ دھاندلی کا شکار نظر آئے…اور اُنہیں حکومت کے پانچ سالہ دور میں اِسی چیز سے فرصت نہیں ملتی کہ آیا وہ قوم کے مفاد کی کوئی بات یا پروگرام ہی سوچ لیں…وہ بس اپنے حقوق کے لیے ہی سرگرم رہتے رہتے ہیں یوں ایک دوسرے کے فوبیا کی بیماری مسائل کو بدستور طول دیے رکھتی ہے…حالاں کہ مضبوط ریاست کے اصولوں میں یہ چیز بھی شامل ہوتی ہے کہ حکومت چاہے جس کی بھی ہو قومی مفادات کے ہر منصوبے اور وژن کا خلوص دل سے ساتھ دیا جائے گا…مخالفت صرف وہیں ہو گی جہاں قومی مفادات کو دھچکا لگنے کا خطرہ ہو…
اِسی طرح ایک رسمِ احتجاج ہے جو جائز ہے اور اپنے خدشات،تحفظات اور مطالبات کو واضح طور پر پیش کرنے کی راہ بھی…احتجاج کا حق ہر ایک کو ملنا چاہیے…
ہم ریاستِ مدینہ کے راہ نما حضرت محمدﷺ کو دیکھتے ہیں جو ایک اعرابی کو جو قرض کے مطالبے میں تلخ رویہ اختیار کر لیتا ہے لیکن آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنے اصحاب سے فرماتے ہیں نہیں یہ اس کا حق ہے…اسے احتجاج کرنے دو…اور قرض کی بہترین اور زیادہ طریقہ سے ادائیگی کی جائے…اللّٰہ اکبر…
رحمتِ دو عالم ﷺ ایک عام شخص کو احتجاج کا کیسے حق دے رہے ہیں؟
کہ حاکم کے سامنے کھڑا شخص بھی مکمل مامون اور انتقام سے بے خوف ہو…اُسے اپنے حق تک رسائی ملے…
یہ ہے انسانی حقوق کی اصل فراہمی اور خود احتسابی کا حقیقی درس…
لیکن ہمارے ہاں شعور کی کمی احتجاج کو بھی حقیقت کی بجائے سیاسی رنگ دیتی ہے…پڑھا لکھا طبقہ بھی بعض اوقات احتجاج کے لیے نکلتا ہے تو تشدد کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے…سنگ باری اور قومی املاک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے جو کہ سراسر غیر مہذب طریقہ و عمل ہے…
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ صورت حال اُس وقت بھی پیدا ہوتی ہے جب فریقین میں اعتماد کی کمی ہوتی ہے اور اُسے بلڈ اپ نہیں کیا جاتا…احتجاجی یہی سمجھتے ہیں کہ بغیر تشدد و حد سے گزرے انہیں کچھ حاصل نہیں ہونے والا…اور دوسری طرف سے بھی کچھ گرمی تبھی نظر آتی ہے…!
میڈیا کے میدان میں آزادئ اظہار کے نام پر کئی سقم نظر آئیں گے…کھمبیوں کی طرح اُگے چینلز قوم کو کوئی واضح راہ نمائی،تربیت،رائے عامہ کو بہترین اور مثبت سمت میں ہموار کرنا جو کہ میڈیا کا بنیادی مقصد ہوتا ہے سے قاصر رہتے ہیں…
اور سوشل میڈیا کے طوفان کی زباں و بیاں کے طوفان پر بحث تو اور ہی الگ معاملہ ہے…ہم نے تو اختلاف رائے،تنقید اور ردعمل کے فن میں بھی ابھی مہارت حاصل کرنی ہے…اندازِ گفتگو اور لفظوں کے انتخاب کا ہنر بھی سیکھنا ہے…!
لطف و مزاح اور ادب کے دائرہ و حدود سے آگہی بھی تو حاصل کرنی ہے…!
یہ ساری چیزیں کسی بھی قوم کے مہذب اور غیر مہذب ہونے کی عکاسی ہوتی ہیں…!!!
صحت کے مسائل اور علاج گاہوں کی کمی کا یہ عالم ہے کہ گنجان آبادیوں میں علاج کی غرض سے گھنٹوں کا سفر طے کرنے کے بعد مریض مرہم تک پہنچ سکتا ہے…اور قوم کے شعور کی طرف دیکھا جائے تو سرکاری ہسپتالوں کے دھکوں اور علاج پر شاکی نظریں رکھتے اور پرائیویٹ کلینکس پر ڈاکٹروں کو لاکھوں روپے فیس اَدا کر کے فوری علاج کروانے میں عافیت سمجھتے ہیں یعنی کہیں سسٹم خراب ہے تو کہیں مائنڈ سیٹ…!
غرض ہر شعبہ زندگی وہ وکلاء ہوں یا طلباء،اطباء ہوں یا علماء…اساتذہ ہوں یا سیاستدان،حکام ہوں یا عوام جب سبھی اپنے اپنے فرائض سے آگاہ اور مخلص ہو جائیں گے تو ان شآ ءَ اللّٰہ ہم جلد فکری اور تعمیری طور پر مضبوط قوم بن کر اُبھریں گے…کیوں کہ ہم نے فرقہ فرقہ،گروہ گروہ بن کر نہیں بلکہ ایک قوم بن کر سوچنا اور آگے بڑھنا ہے… ہم تو ہیں ہی ایک نظریاتی مملکت اور اس کا دفاع یقینًا ہم سب کا مضبوط دفاع ہے-
جب قوم فرماں بردار بچوں اور ریاست مشفق ماں کا کردار ادا کرے گی…پورے گھر میں کسی کی بھی بے چینی اُس سے برداشت نہیں ہو گی اور وہ تڑپنے اور سسکنے کا فوری نوٹس لے گی تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم بے چین ہوں گے بلکہ امن و آشتی اس گُلشن میں ہنس ہنس کر کھیلیں گے…
مانا کہ بہت سے لوگ اکیسویں صدی میں خوش حال ہوں گے مگر برادری میں کوئی گھرانہ کسی بے بس غریب کا بھی ہو سکتا ہے،جس پر نظر اور خیال رکھنا ثروت مندوں کی ذمہ داری ہے ناں…ہاں جسے ہر وقت اپنے اردگرد بیٹھے بچوں کے دو وقت کی روٹی کی ہی فکر ستائے رکھتی ہو…اور وہ امیر برادری کے چونچلوں اور رواجوں سے بے خبر اپنی ہی دُھن میں مگن رہتا ہو اور بسا اوقات کسی کے ذہن میں وہ اندھیرے، تنہائی اور مایوسی یوں بھی گھیراؤ کر لیتے ہوں کہ وہ خود کشیوں پر بھی مجبور ہو جاتے ہیں، پھر ہو سکتا ہے موٹیویشنل لیکچر بھی انہیں متاثر نہ کر پائیں،کیوں کہ دنیاوی اسباب بھی تو کسی مقصد کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اور جب اسباب حرکت میں نہ آئیں تو مایوسی تو بڑھے گی ہی ناں؟
اُڑتے اُڑتے آس کا پنچھی دُور افق میں ڈوب گیا…
روتے روتے بیٹھ گئی آواز کسی سودائی کی…!
ایسے مسائل اور خبریں اب تربیت و عمل کے بل بوتے پر ختم ہو جانے چاہئیں…ہم عمر کے لحاظ سے تو کافی بڑے ہو گئے ہیں…ابھی تک ایسا کیوں ہے…؟
وہ عمر رضی اللّٰہ عنہ تھا ناں رعایا کی خبر گیری کر کے بچوں کے رونے کی آواز پر بے چین ہو جاتا…اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کے بار پر تڑپ اُٹھتا…
مان لیا کہ تب تو آبادیاں بھی کم تھیں…لیکن اب جتنی آبادیاں ہیں اُس سے تیز رفتار وسائل بھی ہیں…بس غور و فکر والے دل اور بصیرت والی آنکھیں درکار ہیں…
بس ہمیں تھوڑا سا سیاسی،معاشرتی،فکری اور تربیتی اعتبار سے بالغ ہونے کی ابھی ضرورت ہے…!!!