سنجرانی بمقابلہ گیلانی، بازی پلٹ گئی ،تہلکہ خیز انکشاف مبشر لقمان کی زبانی

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ آج کی اس ویڈیو میں ہم آپ کو بتائیں گے کے کس طرح چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں بازی پلٹ چکی ہے، اور اپوزیشن کی چیئرمین سینٹ کے لیئے اکثریت اقلیت میں تبدیل ہو چکی ہے وہ کون کون سے لوگ ہیں جو اپوزیشن میں ہونے کے باوجود حکومتی اتحاد کو ووٹ دیں گے۔ جماعت اسلامی کا ووٹ کیسے اہم ہو چکا ہے اور اپوزیشن کے ووٹ 52 سے48
ہو چکے ہیں۔ اس ویڈیو میں ہم آپ کو انتہائی دلچسپ معلومات دیں گے۔ جس سے اپ کے سامنے چیئرمین سینٹ کے متوقع نتائج پر پہنچنا آسان ہو جائے گا۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ اس وقت سینٹ کے الیکشن میں صورتحال بہت دلچسپ ہو چکی ہے۔۔شیخ رشید کے مطابق صادق سنجرانی نہ صرف حکومت کے امیدوار ہیں بلکہ وہ ریاست کے بھی امیدوار ہیں ریاست سے ان کی مراد کیا ہے یہ آپ کو سمجھنے میں مشکل نہیں ہونی چاہیے۔ صادق سنجرانی تین سال پہلے آزاد حیثیت میں سینیٹر بنے اور اس کے بعد پیپلز پارٹی ، باپ پارٹی اور تحریک انصاف کی مدد سے چیئرمین سینٹ بن گئے۔ریاست کی طاقت کا مظاہرہ اگر کسی نے دیکھنا ہو تو صادق سنجرانی کی عدم اعتماد کی تحریک کے اعداد و شمار دیکھ کر کیا جا سکتا ہے جب پیپلز پارٹی اور ن لیگ ایک دوسرے کے قریب آئی تو صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا کر حکومت کو پہلا جھٹکا دینے کا منصوبہ بنایا گیا ۔ صادق سنجرانی کے خلاف 64دستخطوں سے تحریک عدم اعتماد جمع کروائی گئی جبکہ اس تحریک کے کامیاب ہونے کے لیئے صرف 51 ووٹوں کی ضرورت تھی۔جب خفیہ رائے شماری کے تحت پڑنے والے ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی تو صادق سنجرانی کے خلاف 50ووٹ کاسٹ ہوئے جس میں سے پانچ ووٹ مسترد ہوگئےاور ان کے خلاف صرف45ووٹ شمار ہوئے۔اوپر سے اپوزیشن کے چودہ سینیٹرز نے صادق سنجرانی کوووٹ ڈالے دیئے۔۔ یہ صورتحال دیکھ کر اپوزیشن کے ایسے طوطے اڑے کہ۔۔ ڈپٹی چیئرمین سینٹ سلیم مانڈوی والاکے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ووٹنگ چھوڑ کر اپوزیشن اپنے سارے ممبر لے کر سینٹ سے باہر چلی گئی اور سینٹ میں صرف36 حکومتی اتحاد کے سینیٹر رہ گئے اور اس طرح اس عدم اعتماد کو ناکام بنایا گیا۔۔ اپوزیشن کو خطرہ تھا کہ اگر ووٹ پڑ جاتے تو چیئرمین سینٹ کو تو کیا اڑانا تھا ان کا اپنا ڈپٹی چیئرمین سینٹ اڑ جانا تھا۔۔ اپوزیشن اس کا الزام ریاست پر لگاتی ہے ۔ANPکی سینیٹر ستارہ ایاز نے صادق سنجرانی کو ووٹ دیا اور پھر ان کی پارٹی نے ان کے خلاف انضباتی کاروائی کی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے اپنے سینیٹرز کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔ جبکہ سینٹر دلاور عباس کا نا سامنے آ گیا تھا کہ انہوں نے سنجرانی کو ووٹ دیا تھا۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ ایک بات یاد رکھیں۔ جب میاں نواز شریف نا اہل ہوئے تھے اور انہوں نے اپنے دستخطوں سے سینٹ کے ٹکٹ جاری کیئے تھے تو ان ٹکٹوں کی پارٹی حیثیت ختم ہو گئی تھی اور پھر ن لیگ نے آزاد حیثیت میں اپنے سینیٹر Elect کروائے تھے۔ آزاد حیثیت میں سینیٹرز کا یہ کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور وہ آزاد سینیٹرز ابھی بھی سینٹ میں موجود ہیں اور اگلے تین سال کے بعد ریٹائر ہوں گے۔ اس وقت 52 سینیٹر اپوزیشن اتحاد کے پاس ہیں
48حکومتی اتحاد کے پاس۔۔جن میں تحریک انصاف کی ستائیس۔۔ جس میں عبدالقادر شامل ہیں جنہوں نے سینٹر منتخب ہونے کے بعد تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی ہے۔ تحریک انصاف نے پہلے انہیں ٹکٹ جاری کیا تھا پھر پارٹی میں احتجاج پر انہیں آزاد حیثیت میں جتوایا گیا۔ اپوزیشن الزام لگاتی ہے کہ انہوں نے ستر کروڑ روپے حکومتی پارٹی کو سینیٹر بننے کے لیے دیئے ہیں۔باپ پارٹی کے بارہایم کیو ایم کے تینGDA, PML Qایک ایک اور تین فاٹا کے آزاد سینیٹر حکومتی اتحاد مین شامل ہیں۔چیئر مین سینٹ بننے کے لیئے 51سینیٹر درکار ہیں جو اپوزیشن کے پاس میسر ہیں۔ ۔لیکن کھیل اتنا سادہ نہیں ہے۔ان باون میں سے ایک اسحاق ڈار موجود نہیں ہیں باقی رہ گئے 51اس مین سے جماعت اسلامی نے یوسف رضا گیلانی کوووٹ نہیں دیا تھا اور بائیکاٹ کیا تھا۔ اگر اس انتخاب میں بھی جماعت اسلامی بائیکاٹ کرتی ہے تو باقی بچ گئے50لیکن بات یہاں نہیں رکتی۔۔ بلوچستان نیشنل پارٹی عوامیبلوچستان میں ھکومتی اتحادی ہے اور باپ پارٹی نے اس کا ایک سینٹر بننے میں مدد کی ہے،نسیمہ احسان اس دفعہ آزاد حثیت سے سینٹر بنی ہیں وہ دوہزار بارہ سے دوہزار اٹھارہ تک۔۔BNPکی سینٹر تھی۔اب بھی شائد دوباری شامل ہو گئی ہیں۔ اس بات کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شائد ان کے لیئے اپوزیشن کو ووٹ دینا ممکن نہ ہو،

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ یہی نہیں بلوچستان میں عوامی نیشنل پارٹی باپ اور تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی اتحادی ہے اور اے این پی کے بلوچستان سے نو منتخب سینیٹر عمر فاروق کو حکومتی جماعت باپ کی بھی حمایت حاصل رہی ہے ان لوگوں کے لیئے اپوزیشن کوووٹ دینا مشکل ہو جائے گا جبکہ وہ چودہ لوگ جنہوں نے دوہزار انیس کے عدم اعتماد میں پارٹی ہدایات کے خلاف صادق سنجرانی کو ووٹ دیا تھا ان میں سے کتنے لوگ ریٹائر ہو گئے ہوں گے۔ یہ بتانا مشکل ہے لیکن یہ بات گارنٹی سے کہی جا سکتی ہے کہ ان میں سے آدھے لوگ ابھی بھی سینٹ میں موجود ہیں۔ ووٹ خفیہ ہے اور خفیہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یوسف رضا گیلانی۔۔ صادق سنجرانی کے مقابلے میں پانچ کے قریب ووٹوں سے ہار سکتے ہیں۔اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ناممکن ہے تو آپ یوسف رضا گیلانی کی حالیہ جیت اور صادق سنجرانی کی عدم اعتماد پر نظر ڈال لیں یہ دونوں ہی ناممکن کو ممکن کرنے کی ماضی میں مثال قائم کر چکے ہیں۔قانون کے مطابق اس وقت تک سینٹ مین انتخابات کا سلسلہ جاری رہے گا جب تک کوئی ایک امیدوار51یا اس سے زیادہ ووٹ حاصل نہیں کر لیتا اور اس وقت اپوزیشن کی اکثریت۔۔ اقلیت میں بدل چکی ہے۔کیا خوب کھیل کھیلا گیا ہے پہلے خفیہ ووٹنگ کے پیچھے اپوزیشن کو لگایا گیا۔۔اپوزیشن نے وہ کھیل بڑے شوق سے کھیلا جس کی وہ نہ صرف ماضی میں Victim بن چکی تھی بلکہ دوبارہ بننے جا رہی ہے۔۔ آپ سوچیں اگر اپوزیشن شو آف ہینڈ کا حکومتی مطالبہ مان لیتی تو اس میں وزیر اعظم کی طرح چیئرمین سینٹ کے انتخابات بھی شو آف ہینڈ سے ہو سکتے تھے اور اپوزیشن کو اکثریت کے باوجود کسی بڑے دھچکے کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
گیلانی کی سیٹ اپوزیشن کو دے کر پورے کے پورے سینٹ پر اسی طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے۔ اقلیت کے باوجود اکثریتی سیٹ جیتنے کی بنیاد ڈال دی گئی ہے۔دوسری طرف اخلاقیات کا درس دینے والی حکومتی جماعت کے ترجمان اوروزیر اطلاعات شبلی فراز کا کہنا ہے کہ اپوزیشن ہمیشہ قوانین کی دھجیاں اڑاتی ہے، پیسہ استعمال کرتی ہے اور ہر طریقہ اختیار کرتی ہے۔ اس دفعہ ہم تیار ہیں۔ جو بھی ہوگا، ہم ہر وہ چیز کریں گے جو جیت کے لیے درکار ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بار اچھا اچھایا شریف شریف نہیں کھیلیں گے اور قوائد کی ہر شق پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ ستم ظریفی دیکھیں۔۔ ایک طرف عمران خان قومی اسمبلی میں جس بات کے خلاف اتنا احتجاج کر رہے تھے، کرپشن کے خلاف جہاد کی قوم کو تلقین کر رہے تھے۔ خودان کی پارٹی اسی راستے پر چل نکلی ہے۔ اور اپنے بنائے ہوئے اصولوں سے نظریں چرا رہی ہے۔کبھیBusiness tycoonعبد القادر کو ٹکٹ دیئے جا رہے ہیں۔ کبھی مولانا فضل الرحمان کی پارٹی کو ڈپٹی چیئر مین سینٹ کی آفر کی جا رہی ہے، جس پارٹی کے لیڈر کو عمران خان دو نمبر قرار دیتے ہین اسے اپنا اتحادی بنانے کا تحریک انصاف سوچ بھی کیسے سکتی ہے۔ اس پر ہم صرف یہی کہہ سکتےہیں کہدوسروں کو نصیحت، خود میاں فضیحت ،یوسف رضا گیلانی اور صادق سنجرانی اس وقت ہر ایک پارٹی اور ہر ایک امیدوار سے رابطہ قائم کر کے ان سے حمایت کی درخواست کر رہے ہیں۔اس وقت خود حکومتی امیدوار صادق سنجرانی بھی کوئی ایسا دروازہ نہیں چھوڑ رہے ہیں جہاں وہ دستک نہ دے رہے ہوں۔
اس وقت یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہجماعت اسلامی کا ایک ووٹ کسے جائے گا؟یہ بات طے ہے کہ اگر پیپلز پارٹی سے Background میں کوئی Understanding نہیں ہوئی ہے تو یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینٹ کسی صورت نہیں بننے دیا جائے گا کیونکہ یوسف رضا گیلانی وہ شخص ہین جنہوں نے اپنی پارٹی سے وفا داری دیکھاتے ہوئے افتخار چوہدری کے ہر طرح کے پریشر میں آنے سے انکار کر دیا تھا اور سوئس حکام کو خط نہ لکھ کر اپنی وزارت عظمی قربان کر دی تھی۔ کیا اس شخص سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ریاست یا حکومت کا اٹھارویں ترمیم جو پیپلز پارٹی کی کمزوری ہے اور وفاق پر لٹکتی تلوار اسے کسی بھی صورت ختم ہونے میں کوئی مدد کریں گے۔
ایسے میں اس نتیجے پر پہنچنے میں زیادہ مشکل نہیں ہونی چاہیے کہ اگلا چیئرمین سینٹ کون ہو گا۔ جبکہ اپوزیشن کے پاس اخلاقیات کا رونا رونے کا جواز بھی نہیں ہے کیونکہ وہ خود ویڈیوز کی صورت میں اور تحریک انصاف سے وفاق میں سینٹ کی سیٹ چھین کر۔۔ اس جوازکا جنازہ نکال چکی ہے۔۔ ایسے حالات میں چیئرمین سینٹ کے نتائج کی حرارت لانگ مارچ میں دیکھنے کو ملے گی جو اس الیکشن سے دو ہفتے بعد ہی شروع ہونے والی ہے۔ اگلا ایک مہینہ ملکی سیاست کے لیئے انتہائی اہم ہے۔۔ اونٹ کسی بھی کروٹ بیٹھ سکتا ہے۔اس دوران ہم آپ تک تمام تازہ ترین اپ ڈیٹس اور خصوصی تجزیے بروقت لاتے رہیں گے۔ اگر آپ نے ابھی تک چینل کو سبسکرائب نہیں کیا ہے تو کر لیں اور بیل آئی کون پریس کر دیں۔

Shares: