اک نظریہ جو ایفائے عہد نا ہو سکا
ازقلم غنی محمود قصوری
14 اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آیا جس کے لئے ہمارے آباؤ اجداد نے بے شمار قربانیاں دیں مگر اس سے قبل ہمارے قائدین نے بھی بھرپور جدوجہد کی تبھی یہ مملکت خدادا پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا
پاکستان کا خواب ولی کامل حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا تھا اسی لئے انہوں نے اپنی مردم شناس نظر سے قائداعظم حضرت محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کی قائدانہ صلاحیتوں کو بھانپ کر قائد اعظم کو اس وطن عزیز کے لئے جستجو کے لئے چنا کیونکہ اس وقت پورے ہند کے ہر صوبے میں ایک یا اس سے زیادہ مسلمانوں کی تنظیمیں تھیں مگر اقبال جانتے تھے کہ حقیقی محنت و مشقت قائد اعظم اور ان کے ساتھی ہی کر سکتے ہیں اور مسلمانان ہند کی ایک مشترکہ جماعت ہونا لازم ہے سو آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جا سکے
اقبال فہم و فراشت والے تھے وہ جانتے تھے کہ مسلمانان ہند و ہندوؤں کا ایک ساتھ رہنا ناممکن ہے اسی لئے اقبال نے 1930 کو الہ آباد کے تاریخی اجلاس میں جداگانہ وطن کے حصول کا نظریہ پیش کرکے ساری دنیا کے ایوانوں میں دھماکہ کر دیا تھا
اقبال رحمۃ اللہ علیہ اس ملک کو خالصتاً اسلامی اصولوں پر چلانا چاہتے تھے اسی لئے انہوں نے 28 مئی 1937 کو قائد اعظم کے نام لکھے اپنے خط میں لکھا تھا کہ
اسلامی قوانین کے نفاذ سے ہی ہمارا ملک ترقی کر سکے گا میں اسلامی قانون کے مطالعہ سے اس نتجیے پر پہنچا ہوں کہ اگر اسلامی نظام کا نفاذ کیا جائے تبھی ہر ہر شحض کم از کم حق معاش تک پہنچے گا اور میرا عقیدہ ہے کہ ہر مسلمان غربت سے نجات اور امن و امان تک رسائی بغیر شرعی نفاذ کے حاصل نہیں کر سکے گے
ایک اور خط میں اقبال نے قائد کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا تم جدوجہد سے الگ وطن تو لے لو گے مگر بغیر اسلامی نفاذ کے اس کو صحیح معنوں میں ایک ملک کی طرح نا چلا پاؤ گے لہذہ اس ملک کی بقاء قرآن و سنت کے نفاذ سے ہی ہوگی
آخر کار حکم ربی سے اقبال 21 اپریل 1938 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے
23 مارچ 1940 کو منٹو پارک لاہور میں قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کے جانثار ساتھیوں نے اقبال رحمۃ اللہ کی خواہشات کے عین مطابق قرار داد پاکستان پیش کی اور قائد نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا
آج اقبال ہم میں موجود نہیں،
(فوت ہو گئے ہیں) اگر وہ زندہ ہوتے تو وہ یہ جان کر کتنا خوش ہوتے کہ ہم نے وہ سب کچھ کر دیا جو وہ چاہتے تھے
قائدِ اعظم اور ان کے رفقاء نے دوقومی نظریہ کی بنیاد پر اقبال کی خواہشات کے مطابق بڑی جدوجہد سے پاکستان کا قیام کیا اور قائد اعظم نے بارہا اپنے تقریریں میں کہا کہ اس ملک کی بقا و سلامتی قرآن و سنت کے نفاذ سے ہی ہے مگر افسوس کہ آج ہم نے قرار داد پاکستان ،یوم پاکستان، اور یوم آزادی کے دنوں کو منانا ہی قیام پاکستان کا مقصد سمجھ لیا ہے حالانکہ ایسا ہرگز اقبال و قائد نے پوری زندگی قرآن و سنت کے نفاذ کی عملی کوششیں کیں مگر ان کی زندگیوں نے ساتھ نا دیا اور رب کے حضور چلے گئے مگر ہمارے ان کے بعد آنے والے ہر حکمران نے نظریہ اقبال و جناح کو اہمیت نا دی اور آج پاکستان کو غریب کے لئے تنگ کر دیا جس کی بدولت آج غربت مہنگائی،بے روزگاری اور دہشت گردی کا سامنا ہے یہ خود کو اقبال و قائد کے روحانی فرزند کہنے والے اغیار سے یاریاں لگا کر اس مملکت پاکستان کے بنانے کا مقصد ہی بھول گئے تبھی یہ خود بھی ذلیل و رسواء ہو رہے ہیں اور پاکستان کے امن و امان کو بھی خطرہ لاحق کر رہے ہیں مگر یہ بھول گئے کہ وہ نظریہ جو ایفائے عہد نا ہو سکا اس کے چور یہ موجودہ وہ سارے سابقہ حکمران بھی ہیں ان شاءاللہ کل روز قیامت اقبال و قائد کا ہاتھ ہوگا اور ان کے گریبان کیونکہ ان کو بنا بنایا پاکستان ملا ہے ناکہ اقبال و قائد کی طرح محنت کرکے