لاہور:پاکستان ایوی ایشن کی تباہی میں اپنے بیگانے سب شامل:اگراب بھی احساس نہ ہواتوپھرپچھتاتے رہیں گے:اس شعبہ سے وابستہ افراد نے پاکستان ایوی ایشن کوبچانے کے لیے پھرآوازلگا دی ،
اطلاعات کے مطابق جس طرح پچھلے چند ماہ سے پاکستان کی ایوی ایشن صنعت روال پزیرہے اورہرکوئی اس کی طرف انگلیاں اٹھا رہا ہے اس کے بارے میں بہت کچھ کہا جارہا ہے اورسنا بھی جارہا ہے ، ایسے بھی ہیں جو اپنے اس ادارے کوناکام ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے ،
جس طرح عالمی تنظیموں اوراداروں کی طرف سے اس پرپابندیاں لگ رہی ہیں اوربار بار دھمکایا جارہا ہے اس سے کون واقف نہیں ہرکوئی دیکھ رہا ہے لیکن دکھ کی بات یہ ہےکہ ہمارے ہاں جواس شعبے کوڈیل کررہا ہےاس اس کی الف ب کا بھی پتہ نہیں ۔
ماہرین جو اس صنعت سے وابستہ ہیں ان کا کہنا ہے کہ اگر وزیر ہوا بازی کے پاس معلومات کا فقدان ہے اور وہ بین الاقوامی فورمز پر ہماری نمائندگی نہیں کرسکتے اورمیڈیا کے ذریعے ان عیبوں پرپردہ ڈالنے کی کوشش ہورہی ہے تو ہم ایسے شخص سے اور کیا امید کرسکتے ہیں جس کا کوئی ایوی ایشن پس منظر نہیں ہے۔
اسکائی ونگز کا ایئر ورکس لائسنس پچھلے دو سالوں سے اس بہانے پر جاری نہیں کیا جاتا ہے کہ وزارت داخلہ کے ذریعہ آئی ایس آئی کی منظوری کا انتظار ہے جو قومی ہوا بازی کی پالیسی 2019 کے مطابق درکار نہیں تھا۔
نیشنل ایوی ایشن پالیسی 2019 کے پیرا 4.3.6 (منسلک) کے عین الفاظ ، جو پارلیمنٹ کا ایک عمل ہے یہ ہیں:
"متعلقہ ایجنسیوں سے آپریٹر / درخواست دہندہ اور ہوائی اڈے کی خدمات فراہم کرنے والے کی سیکیورٹی کلیئرنس لازمی ہوگی۔ ایوی ایشن ڈویژن ہر معاملے کے لئے براہ راست متعلقہ وزارت / ایجنسی (انٹیلی جنس بیورو اور خصوصی برانچ) سے بات چیت کرے گا۔”
جیسا کہ قومی ہوا بازی کی پالیسی 2019 میں مذکور ہے کہ صرف IB اور اسپیشل برانچ کی منظوری کی ضرورت ہے۔ ایوی ایشن ڈویژن اور وزارت داخلہ کے خود آئی ایس آئی کی منظوری شامل کرنے کے طریقہ کار پارلیمنٹ کے ایکٹ کے منافی ہے۔
قومی ہوا بازی کی پالیسی 2019 کا کہنا ہے کہ ایوی ایشن ڈویژن براہ راست ایجنسیوں سے بات چیت کرسکتا ہے۔ وزارت داخلہ کے ذریعہ جانے کا اضافی چینل کیوں شامل کیا گیا؟ مشکل بیوروکریٹک سائیکل کاروبار میں رکاوٹیں اور تاخیر پیدا کرتے ہیں۔
قومی ہوا بازی کی پالیسی 2019 کی غلط تشریح کاروباری لائسنس کے اجراء میں تاخیر کا باعث ہے۔اس ماحول میں کاروبار کرنا بہت مشکل ہے۔کوئی نہیں سمجھتا ہے کہ کسی بھی کاروبار میں وقت بہت اہم ہوتا ہے۔
ایسی مشکلات سے نجی شعبے کے ذریعہ ملازمتیں پیدا نہیں ہوسکتی ہیں اور اگر کاروبار کو دو سالوں میں بھی کاروباری لائسنس نہیں مل پاتے ہیں تو معیشت خوشحال نہیں ہوسکتی ہے۔
ہم بہت مایوس ہیں کہ اگست 2020 میں وزیر اعظم پورٹل پر معاملہ رکھنے کے بعد بھی مسئلہ حل نہیں ہوا (منسلک)۔قومی ہوا بازی کی پالیسی 2019 یقینی طور پر ناکامی ہے۔
تعجب کی بات نہیں کہ لوگ ایوی ایشن کے کاروبار میں دلچسپی کیوں نہیں لیتے ہیں۔ ہم بھی ناکامی کی طرف گامزن ہیں اور ہمارے پاس لامحدود وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ہم جلد ہی اپنے کاروبار کو بھی ختم کردیں گے۔
اس شعبے سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ اس ماحول میں کاروبار کرنا بہت مشکل ہے۔
عمران اسلم خان کہتے ہیں کہ انہیں تو یقینا بہت مایوسی ہوئی کہ اگست 2020 میں وزیر اعظم پورٹل پر معاملہ رکھنے کے بعد بھی مسئلہ حل نہیں ہوا
ان کا کہنا تھا کہ اگریہی صورت حال رہی توپھراس پرتعجب نہیں کہ یہ انڈسٹری غلط پالیسیوں اورغیرمناسب قانون سازی کی وجہ سے زوال پزیر ہے اوراس کے زوال پزیرہونے میں اپنے ہی شامل ہیں








