یوم تکبیر کو آج 23سال مکمل ہوگئے،وہ 1998کے مئی کی 28تاریخ کی سہ پہر ہی تھی جب بلوچستان کے ضلع چاغی کا پہاڑی علاقہ 6 ایٹمی دھماکوں سے گونج اٹھا تھا،اس دن کو روکنے کے لئے ساری دنیا یکجان تھی ،ڈراوے اور دھمکاوے باربار آرہے تھےلیکن تب کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نےکوئی دھونس دباؤ قبول کرنے سے انکار کردیا تھا اور یوں وطن عزیز دنیاکی چھٹی اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بنا۔
نواز شریف کے اس انکار اور استقامت کے پس پردہ کون سی قوت کارفرما تھی؟نجانےاس کا ذکر کوئی کیوں نہیں کرتا۔
بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد ساری قوم تڑپ رہی تھی کہ نئی دہلی کو زناٹے دار جواب دیا جائے جب کہ نواز شریف دھماکوں سے پس و پیش کررہے تھے۔دن پہ دن گزر رہے تھے اور پھرجب میاں صاحب کو ان کے ایک بے لوث حامی و ساتھی جناب مجید نظامی ایڈیٹر نوائے وقت جو بالعموم یہ جملہ دھراتے رہتے تھے کہ "میں بھارت بھی جب جاؤں گا ٹینک پر بیٹھ کر جاؤں گا،”نے قومی میڈیا کے ایڈیٹرز کے ساتھ مجلس کے بعد نواز شریف سے یہ برملا کہا کہ "نواز شریف اگر تو نے دھماکا نہ کیا تو عوام تمھارا دھماکا کردیں گے”
ان الفاظ کا انداز اور آواز اس قدر گرج دار تھے کہ نواز شریف کے حوصلے نے مہمیز پکڑی۔ انہی دنوں امیر جماعت اسلامی جناب قاضی حسین احمد بھی بھرپور متحرک تھے اور انہوں نے قومی سطح پر بڑی عوامی تحریک چھیڑ دی تھی کہ پاکستان جیسے بھی ہو فوری ایٹمی دھماکے کرے ۔ انہوں نے اسی حوالے سے بڑی قومی کانفرنس بھی بلائی تھی جس میں دھماکے نہ کرنے کی صورت میں پورے ملک کو سڑکوں پر لانے کا اعلان کیا گیا تھا۔جب ایٹمی دھماکے ہوئے تو سب سے زیادہ اظہار مسرت کرنے والوں میں قاضی حسین احمد اور ان کی جماعت پیش پیش تھی ۔
دوسری طرف سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لئے اول دن سےساراسرمایا مہیا کرنے والے سعودی عرب اور تب کے فرماں روا شاہ فہد بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے بھی پیغام دیا کہ”دھماکا کر گزرو،ہم تمھیں کوئی معاشی نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔”ساتھ ہی سعودی عرب نےپاکستان کے لئےفوری طور پر سارے قرضے معاف کرنے اور بھاری مالی امداد کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر 50ہزار بیرل تیل مفت دینے کا اعلان کر دیا۔
یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنے والے 1974کی مسلم سربراہی کانفرنس کے بعد سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل تھے جنہوں نے بھٹو کو سارا سرمایا مہیا کرنے کا وعدہ کیا اور پھر اسے ایفا بھی کرکے دکھایا۔
شاہ فیصل کے بعد سب سعودی حکمران اس پروگرام کی تکمیل و ترقی میں پیش پیش رہے اور آج تک وہ اپنی خدمات حاضر کئے ہوئے ہیں۔
مسلم سربراہی کانفرنس میں پاکستان کی بھرپور حمایت تائید اور تعاون کا یقین دلانے والوں میں دو دیگر بہترین دوست لیبیا کے کرنل قذافی اور ایران کے رضا شاہ پہلوی بھی پیش پیش تھے۔ رضا شاہ پہلوی پاکستان کے انتہائی قریب اور بھارت کے خلاف جنگوں میں اپنا سب کچھ پیش کرنے میں ہمیشہ آگے رہے اور ایران و پاکستان ایک دوسرے کی ریاستیں محسوس ہوتی تھیں۔
البتہ بہت بعد میں جب لیبیا پر ایٹم بم کی تیاری کا الزام لگا اور عالمی دباؤ آیا توکرنل قذافی کے پاکستان پر اس سلسلے میں تعاون کرنے کے "انکشافات "کے باعث پاکستان کو شدید مشکلات کا سامنا ہوا۔ اسی بنیاد پر ڈاکٹر عبد القدیر خان کو معافی مانگ کر قید بھی کاٹنا پڑی۔
یہ تھے وہ بنیادی محرکات جو ہمارے ایٹمی قوت بننے کی اساس بنے لیکن آج ان سب کا کوئی کہیں تذکرہ نہیں کرتا کہ ہم ٹھہرے جو احسان فراموش قوم۔
دھماکوں اور پھر بین الاقوامی پابندیوں کے بعدسعودی عرب نے ہمیں جو مفت تیل دینا شروع کیا تھا وہ پابندیاں ہٹنے کے باوجود بھی کئی سال تک ملتا رہا۔
ملک کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد اگر ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی تو یہ ان کا احسان نہیں ڈیوٹی تھی اور انہوں نے جمعے کی چھٹی،شراب پر پابندی،قادیانیت کے ک ف ر کے علاوہ یہی چوتھانیک کام کیا تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ بھٹو خود ہوں یا ان کی پارٹی ، ا
نہوں نے ان چاروں کاموں کا نہ کبھی ذکر کیا ہے اور نہ ان کا کبھی کریڈٹ لینے کی کوشش کی۔ جی ہاں، وہی پیپلز پارٹی جو ایک ایک دن کا حساب کرکے مسلسل تقریبات منعقد کرتی اور ایک ایک ذرے کا کریڈٹ لینے کے لئے پوری قوت و صلاحیت صرف کرتی ہے یہاں ہمیشہ خاموش دکھائی دیتی ہے۔اسی پیپلز پارٹی کو جب چوتھی بار اقتدار ملا تو انہوں نے جمعے کی چھٹی بحال کرنے کا نام بھی نہیں لیا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ان سب کاموں کی وجہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کی ناراضی کا خطرہ ہوتا ہے جہاں سے ان سیاست دانوں کے بزعم اقتدار ملتا ہے۔
بہرحال،ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم نے اپنا طے شدہ شان دار کردار ادا کیا،پروگرام کو سب سے زیادہ ترقی و ترویج جنرل ضیاءالحق شہید نے دی جس کا برملا اظہار و اعتراف ڈاکٹر عبدالقدیر خان بارہا کرتے رہتے ہیں کہ ان کے دور میں انہیں ایٹمی پروگرام پر کام کی مکمل آزادی اور تمام وسائل وسیع پیمانے پر مہیا تھے اور کوئی روک ٹوک بھی نہیں تھی اور یہ کہ پاکستان 1983 میں ہی ایٹمی قوت بن گیا تھا۔
پروگرام کو مزید ترقی دینے میں صدر غلام اسحاق خان کا حصہ بہت نمایاں ہے جنہوں نے پوری تندہی اور اخلاص سے پروگرام کو آگے بڑھایا تھا اس پر انہیں بھی ضرور خراج تحسین پیش کرنا چاہئے۔…..
یوم تکبیر کے نامعلوم ہیرو…..جن کا ذکر کوئی نہیں کرتا
(مختصر تحریر،علی عمران شاہین )