اکثر دیکھا گیا ہے کے جب کسی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو انہیں پتہ ہی نہیں چلتا کے ان کے ساتھ زیادتی ہوئی یے۔
کیونکہ وہ سمجھ ہی نہیں پاتی کے دوسرے آپ کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔ ذیادتی کس کس طرح کی ہوتی ہے اس پر ان کا دماغ جاتا ہی نہیں۔
ذیادتی کا مطلب یہ نہیں کے کسی کی عزت ہی لوٹی جائے تو وہ ذیادتی کہلاتی ہے۔
زیادتی بہت طرح سے ہوتی ہے۔ اور یہ ھماری زمداری ہے کے ھم اپنے بچوں کو سمجھائیں کے ذیادتی کے اصل معنی کیا ہیں۔
بہت سے لوگوں کو اندازہ ہی نہیں کے کونسا سلوک یا انداز اچھا ہے اور کون سا انداز غنڈاگردی یا نامناسب ہے اور تہذیب کے دائرے میں نہیں آتا۔
کیونکہ ہمارا معاشرہ ایسا ہے کے اپنے ہی گھر میں بعض لڑکیوں کو کھل کے سانس تک لینے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اگر وہ کسی رشتہ دار کی شکایت کرتی ہے، کے اس نے مجھے غلط انداز میں چھوا، تو بجائے اس پر یقین کرنے کے یا تو ھم اسے چپ کروا دیتے ہیں یا ڈانٹ دیتے ہیں۔ یاد رکھیں ھماری آج کی خاموشی ھمارے بچوں کو ساری زندگی کے لیے احساس محرومی میں ڈال سکتی ہے۔
ایسی بچی کل جب شادی ھو کے خاوند کے گھر جائے گی تو اسے خود کے ساتھ ہونے والی ذیادتی کا اندازہ ہی نہیں ھو پائے گا۔ کیونکہ وہ اپنے ہی گھر سے ایک ذھنی تناو والے انداز میں پروان چڑھی۔
کیا ایسی عورت جو خود اپنے گھر میں جہاں اسے ذرا ذرا سی بات پر لڑکی ھونے کا طعنہ دیا گیا ھو۔ یا جس پر ھم نے کبھی یقین نہ کیا ھو یا اسکی شکایت پر کان نہ دھرا ھو، وہ اپنے بچوں کی صحیح انداز میں پرورش کر پائے گی؟؟؟
نہیں کبھی نہیں۔۔۔
کیونکہ اس کا ذہن اب ایک ہی انداز پر چلنے کا عادی ھو چکا ہے۔
نہ وہ ایک اچھی ماں ثابت ھو گی اور نہ اچھی بیوی، کیونکہ اس کی خود کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے۔ وہ عادی ہو چکی ہے کے دوسرے اس کو انگلی پکڑ کر چلائیں۔ وہ عادی ہو چکی ہے کے لوگ اس پر اعتماد نہیں کرتے۔۔۔
کبھی سوچا ہے کے کس قسم کے لڑکے ایسی لڑکی کی گود سے نکل کر مرد بنیں گے؟ وہ اپنے بچوں کو بھی اپنے جیسا ایک کمزور اور بزدل انداز میں پروان چڑھائے گی۔ اسی طرح بیٹی بھی ماں کی طرح اپنے سسرال میں سب زیادتیاں برداشت کرتی رہے گی۔
جب ھم اپنے بچوں کو اپنے گھر میں ایک بھرپور زندگی جینے نہیں دے سکتے تو سمجھ لیں ھم نے اپنی آنے والی کئی نسلوں کا اعتماد ختم کردیا، انہیں اچھے برے کی تمیز نہیں دی۔ اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا نہیں سکھائی۔
ماں باپ کا فرض ہے کے اپنے بچوں سے کھل کے بات کی جائے انہیں زمانے میں چلنا، اٹھنا بیٹھا، اچھے برے، صحیح غلط اور ذہنی اور جسمانی زیادتی کے بارے میں سیکھایا جائے۔
پرورش گھر سے شروع ھوتی ہے۔ بچوں میں اتنا شعور ھونا چاہیے کے غلط انداز اور اچھے انداز سے ہاتھ لگانے کا فرق سمجھ سکیں۔
بچوں کو اتنا اعتماد دیں کے اگر کبھی انکے ساتھ گھر سے باہر کوئی زیادتی ہوئی ہے، تو اسے سمجھ سکیں اور اس پر آواز بلند کر سکیں، نہ کے شرما کے چپ ہوجائیں۔ خاموشی ہر بات کا علاج نہیں ہوتی۔ خاموش رہنے سے ھم معاشرے میں مزید غنڈاگردی کو عام کریں۔
ھمارے بچے ھمارا سرمایہ ہیں۔ آئیں عہد کریں کے اپنے گھر سے شروعات کرتے ہیں۔ اپنی بچوں کو اتنا مظبوط بناتے ہیں کے وہ اپنے بچوں کی سہی پرورش کر سکیں، انہیں اعتماد دے سکے۔
تحریر۔
طلعت کاشف سلام
@AlwaysTalat