پاکستان کی شاندار چال امریکا کومنہ توڑ جواب ، سکندر اعظم کی نصیحت اور سپر پاورز کا قبرستان

0
78

پاکستان کی شاندار چال امریکا کومنہ توڑ جواب ، سکندر اعظم کی نصیحت اور سپر پاورز کا قبرستان

باغی ٹی وی سینئر اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ آج کی یہ ویڈیو انتہائی دلچسپ ہے اس ویڈیو کو دیکھ کر آپ کو امریکہ اور بھارت کے افغانستان میں کھیل کی سمجھ آ جائے گی۔ اور آج کی اس ویڈیو میں میں آپ کو یہ بھی بتاوں گا کہ بے شک پاکستان ماضی میں انکار کرنے کے باوجود خفیہ طور پر امریکہ کو اڈے دے چکا ہے لیکن اس دفعہ امریکہ کو منہ توڑ جواب دیا جا چکا ہے کیونکہ اس کی چار اہم وجوہات ہیں۔ وہ کیا ہیں میں آ پ کو بتاوں گا لیکن اگر آپ نے ابھی تک اس چینل کو سبسکرائب نہیں کیا ہے تو کر لیں اور بیل آئی کون کو پریس کر دیں۔
سکندر اعظم نے ایک دفعہ کہا تھا کہ خدا ٓپ کو کوبرا سانپ کے زہر، چیتے کے دانت اور افغان کے انتقام سے دور رکھے۔
اور تاریخ گواہ ہے کہ افغانستان ہمشہ سے ہی سپر پاورز کا قبرستان بنتا آ رہا ہے، پہلے برطانیہ، پھر روس اور اب امریکہ۔۔
مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ امریکہ بہادر اپنی ناکامی کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن امریکہ کو کوئی سمجھائے گا کہ اسے آنے سے پہلے بتا دیا گیا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے جنگ شروع تو کر سکتا ہے لیکن اس جنگ کو بند کرنا اس کے بس میں نہ ہو گا۔
اب امریکہ بہادر اپنی اس تاریخی شکست اور رسوائی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کیا امریکہ نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ تو گلہ پھاڑ پھاڑ کر اسے کہہ رہی تھی کہ افغانستان میں شکست اس کا مقدر بن جائے گی۔
روس افغانستان سے اس لیئے نہیں بھاگا تھا کہ اس کے پاس بندوق، گولی، ٹینک ، فوجی سازوسامان یا جنگی جہازوں کی کمی تھی بلکہ روس اس لیئے بھاگا تھا کہ اس کی کمر ٹوت چکی تھی۔ اگر جدید اسلحہ کے زور پر افٖغانستان کو فتح کرنا آسان ہوتا تو روسی فوج ابھی تک افغانستان میں ہوتی۔
افغانستان کی مشہور کہاوت ہے کہ
مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ تمھارے پاس گھڑیان ہوں لیکن ہمارے پاس وقت ہے۔
حال ہی میں طالبان کو جب امریکہ کو رعائت دینے کے حوالے سے قائل کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے کہا کہ ہم نے بیس سال روزہ رکھ لیا ہے اب جب افطاری کا وقت قریب آیا ہے تو ہمیں بے صبری دیکھانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یعنی جہاں بیس سال لڑائی کی وہاں کچھ عرصہ اور لڑائی کرنے کے لیے تیار ہیں۔
امریکہ بہادر خود ایک ملک میں لڑنے کے لیئے آیا اس پر قبضہ کیا ، پاکستان کو دگمکی دے کر اپنے ساتھ ملایا، پاکستان پر ڈبل گیم کا لازام لگایا۔۔ کیا
وہاں کے باشندوں کو اپنے تحفظ کا بھی حق نہیں اور اگر وہ اپنا تحفظ کر رہے ہیں تو امریکہ پاکستان پر الزام لگا رہا ہے کہ اس نے طالبان کو ہر طرح کی مدد کر کے امریکہ کو یہ دن دیکھنے پر مجبور کیا۔
اور امریکہ بہادر نے پاکستان کو
Non natto ally کاStatus دیا اور بیچ میدان میں پاکستان کی لاکھوں قربانیوں کے باوجود اسے میدان میں چھوڑ کر بھاگ گیا۔
کوئی امریکہ بہادر سے پوچھنے والا ہے کہ تم نے خود افغانستان میں گند کیا اور اب ہمیں کس بات کا مورد الزام ٹھہراتے ہو۔؟
مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ اگر تم نے خود تاریخ سے سبق سیکھنے سے انکار کیا اور افغانستان کی طرف مارچ کیا ، اور بھول گئے کے سکند اعظم نے افغانستان کے بارے میں کیا کہا تھا تو ہم پر کس منہ سے الزام لگا سکتے ہو۔
قبضہ کی جنگ کے اپنے نقصانات ہوتے ہیں جو تمھیں فیس کرنے پڑیں گے۔ تمھاری معیشت ڈوب رہی ہے اور اگر تم سمجھتے ہو کہ قرضے کے پیسے سے جنگیں لڑ کر ، ممالک پر قبضے جما کر، ان کی دولت پر گندی نظریں جما کر ۔۔ تم کوئی بڑی کامیابی حاصل کر لو گے تو یہ تمھاری خام خیالی تھی۔ ہم نے تمھیں یہاں آکر قبضہ کرنے کی دعوت نہیں دی تھی۔
چین اور جاپان کے trillions of dollarsکے ادھار کون واپس کرے گا۔ کب تک ڈالر چھاپ چھاپ کر دنیا پر معاشی تسلط قائم رکھو گے۔
مشہور کہاوت ہے
دشمن بدل سکتے ہیں لیکن ہمسائے نہیں بدل سکتے۔
ہم کیسے اپنے ہمسائے کے خ لاف جا سکتے ہیں۔ تم تو اتنا نہیں کر سکتے کہ بھارت کو ہی روک لو کہ وہ افغانستان میں پاکستان کے خلاف سازشیں روکے۔۔
لیکن نہ۔۔۔
وہ تو چین کے خلاف امریکہ کا شرارتی بچہ ہے اسے تو فل اجازت ہے جو مرضی کرتا پھرے۔ اور ہم سے اڈے چایئے ہیں۔ تاکہ ہم اپنے ہی گھر کو جہنم بنا لین اور دہشتگردی کی آگ پاکستان کے چپے چپے میں پھیل جائے۔
امریکہ کی معیشت ڈوب رہی ہے، وہاں
Domestic productsبننا بند ہو گئی ہیں۔ کب تک ڈیفنس انڈسٹری امریکہ کے شہریوں کو نوکریاں فراہم کرتا رہے گا۔ اس وقت ہر چھٹا امریکی بے روز گار ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کے پاسaircraftاورwarshipsکی بہتات رہے گی، لیکن نوکریوں کے مواقع، سوشل سیکیورٹی، انشورنس اور صحت کی سہولیات کا کرونا نے پول کھول دیا ہے۔
مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ جب روس ۔۔ افغانستان میں اپنے قبضے کے آخری دنوں میں تھا تو اس کی معیشت کو بیڑا غرق ہو چکا تھا اور وہی اس کے ٹوٹنے کا سبب بنی۔
جبکہ امریکہ کا مقدر بھی افغانستان پر بیس سال کے قبضے کے بعد کچھ اسی طرح کا نظر آ رہا ہے۔
روس اپنی حماقتوں کا ذمہ دار کسی کو نہیں ٹھہرا سکتا، اس طرح امریکہ بھی اپنی حماقتوں کا ذمہ دار پاکستان کو نہیں ٹھہرا سکتا۔
کیا کوئی تصور بھی کر سکتا تھا کہ دنیا کی جدید ترین فوج۔۔ بندوقوں والے طالبان سے ہار جائے گی۔
لیکن یہ ہو چکا ہے۔ اور اس غصے میں امریکہ ہر ایک کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے اور اس وقت اس غصہ کا مرکز پاکستان ہے۔

وہ حقانی نیت ورک جسے امریکہ نے روس کے خلاف جنگ میں پالا پوسا۔ جب وہ امریکہ کے ہائی ویلو تارگٹس پر حملہ کرتا ہے تو امریکہ پاکستان کی ایجنسی پر چڑھ دوڑتا ہے، یہاں تک کہ پیپلز پارٹی کے دور میں ایک امریکی سینٹر Lindsay Grahamنے پاکستان پر حملے کی دھمکی دے دی۔
وہ امریکہ جو افغانستان میں اپنی جنگ جاری رکھنے کے لیئے پاکستان کو Payکرتا رہا۔
جس کی افغانستان میں تمام سپلائیاں پاکستان کے ذریعے جاتی ہیں۔ اگر پاکستان بگڑ جائے تو امریکہ کے لیئے افغانستان سے نکلنا مشکل ہو جاے۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کو اس کی الگ سے قیمت چکانا پڑے گی۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ آج بھی پاکستان میں امریکہ کے لیئے بھارت سے زیادہ نفرت پائی جاتی ہے۔
کون نہیں جانتا کہ صدر بش اور بارک اوبامہ نے پورا زور لگایا کہ بھارت کی فوج کو افغانستان میں
Involveکیا جائے۔ لیکن بھارت کو پتا تھا کہ پاکستان اسے افغانستان میں بھون دے گا اس لیئے وہ بلکل اس طرف نہیں آیا۔
پھر امریکہ نے بھارت کو گرین سگنل دیا کہ وہ افغانستان میں طالبان کے خلاف اپنی انٹیلیجنس اتارے اور وہاں اینٹی طالبان۔۔ تاجک، ازبک اور ہزارہ Minority کو ہر لحاظ سے سپورٹ کرے۔ امریکہ نے بھارت کے
Nuclear arsnal buildupمیں بھی بہت مدد کی جو صرف اور صرف چین اور پاکستان کے خلاف ہے۔
ظاہری سی بات ہے پاکستان اس طرح چپ کر کے بیٹھ نہیں سکتا تھا، افغانستان سے اس کی سالمیت کا معاملہ جڑا ہوا ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے سٹریٹیجک مفادات بلکل مختلف ہیں۔ اور اکثر یہ ایک دوسرے کے متضاد ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود امریکہ نے پاکستان کے سر پر بندوق رکھ کر اسے اپنےStrategic ally طالبان کے خلاف جنگ لڑنے پر مجبور کیا۔ پاکستان امریکہ کے لیئے کیوں اپنے مفادات کی قربانی دے۔ جس کیا خارجہ پالیسی عام طور پر اس کے اپنے
special interest groupsچلاتے ہیں۔اب ہمیں کہا جا رہا ہے کہ ہم انہیں طالبان کے خلاف پاکستان میں اڈے دیں۔
بھائی کیوں دیں۔
پاکستان نے انتہائی عزت کے ساتھ اس کا منہ توڑ جواب دئ دیا ہے۔پاکستان کسی بھی صورت یہ حرکت نہیں کر سکتا۔
یہ الگ بات ہے کہ ماضی میں پاکستان نے یہ کام کیا لیکن اس وقت ھالات بلکل مختلف ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے اور بعد میں طالبان سے لڑائی کے طریقہ کات پر اتنی تنقید کی کہ اب وہ خود اپنی باتوں کے خلاف جا کر اپنی سیاسی قبر کھود لیں گے۔
دوسرا دنیا بھر کے ممالک اس وقت طالبان سے تعلقات بنا رہے ہیں پاکستان کسی صورت بھی اپنے اتحادی کو امریکہ کے خلاف اپنا دشمن نہیں بنا سکتا۔ جبکہ وہ پاکستانی طالبان کی صورت میں پاکستان کے لیے اچھی بھلی مشکلات کھڑی کر سکتا ہے۔
مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ تیسرا امریکہ پاکستان کے دو اور ہمسایہ ملک چین اور ایران کا بھی جانی دشمن ہے اور پاکستان یہ حرکت کر کے کسی صورت بھی اپنے تمام ہمسایوں کو اپنا دشمن نہیں بنا سکتا۔
اس بات کا کسے نہیں پتا کہ امریکہ چین کے سی پیک کا جانی دشمن ہے۔ امریکہ کو افغانستان میں اڈے دے کر جو گوادر سے چار سو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے سی پیک کو خطرات لاحق نہیں کر سکتا ہے نہیں ہو سکتا کہ پاکستان امریکہ کو اپنے گھر میں بیٹھا کر اسے اپنی من مرضی کرنے سے روک لے۔ جبکہ ایران کا بارڈر بھی اس کے ساتھ ہو۔
چین کے پاس اس وقت اس لحاط سے بہتر منصوبے ہیں۔ ایک طرف وہ سینٹرل ایشیا میں اہنے اتحادی ممالک اور روس کے ساتھ مل کر افغانستان میں اپنے مفادات کا تحفظ کرے گا اور دوسری طرف وہ پاکستان، طالبان اور ایران کے ساتھ مل کر افگانستان مین برابری کے لیول پر کام کرے گا۔
وہ امریکہ کی طرح چوہدری بن کر دھونس دھاندلی نہیں کرے گا۔ جو یقینا پاکستان کے بہترین مفاد میں ہو گا۔ تو ایس صورٹھال میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ کے کسی بھی پریشر میں آکر غلط فیصلہ کرنا پاکستان کے لیئے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔

Leave a reply