شہر لاہور سے الفت یونہی تو نہیں ، تحریر:ڈاکٹر حمزہ احمد صدیقی

شہر لاہور سے الفت یونہی تو نہیں ،
اِس پہ ہر شہر جو لُوٹا بیٹھا ہوں

پنجاب کی سرزمین برصغیر کی تاریخ کا جھومرہے، اور اس جھومر کی پیشانی ہے "شہرِ لاہورہے” پاکستان میں لاہور شہر ایک تاریخی،تجارتی ، صوبائی سیاسی، ثقافتی، تعلیمی اور صنعتی سرگرمیوں کا مرکز ہے، زندہ دلان لاہور کے روایتی جوش و جذبے کے باعث اسے بجا طور پر پاکستان کا دل کہا جاتا ہے۔

لاہور صرف ایک شہر نہیں ہے لاہور ایک کیف ہے، جو طاری ہو جائے تو ہو جائے۔ مغربی جانب بہنے والے دریائے راوی نے اس کے حسن کو دوبالا کر دیا ہے۔اس شہر کی آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے اور ساتھ ہی میں لاہور اپنے باغات اور قدرتی حسن کے باعث اسے عروس البلاد کہا جاتا رہا ہے

لاکھوں ہیں شہر لیکن کب اور تیرے جیسا
ڈھونڈے نہ ملا ہم کو لاہور تیرے جیسا

شہرِ لاہور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے اور ساتھ ہی میں لاہور دنیا کا پندرہواں بڑا شہر ہے، لاہور کا شمار دنیا کے قدیم اور اہم ترین شہروں میں کیا جاتا ہے۔ اس میں 460 تاریخی عمارتیں ہیں ،اس تاریخی شہر کے بارہ دروازے ہیں ، ایک چھوٹا دروازہ بھی ہے جیسے موری دروازہ کہا جاتا ہے

شہر لاہور دنیا کے ان گنے چنے خوش نصیب شہروں میں سے ہے جو اپنی تاسیس کے بعد مسلسل آباد چلے آرہے ہیں اس شہر لاہور میں ایک محلہ مولیاں ہے جہاں کہا جاتا ہے کہ یہاں
کبھی مہاتما بدھ آکر ٹھہرے تھے۔شہرِلاہور کا قدیم نام "لوپور” ہے اور لاہور دو الفاظوں کا مرکب ہے "لوہ "یا "لاہ "جس کا مطلب "لَو” اور "آور” جس کا مطلب "قلعہ” ہے، اسی طرح صدیاں گزرتی گئیں اور پھر "لوہ آور” لفظ بالکل اسی طرح لاہور میں بدل گیا

روایت کے مطابق راجہ رام کے بیٹے راجہ لوہ نے شہر لاہور کی بنیاد رکھی اور یہاں ایک مضبوط قلعہ تعمیر کیا۔ پھر اس کے بعد دسویں صدی عیسوی تک یہ شہر ہندو راجائوں کے زیرنگیں رہا۔ گیارہویں صدی میں یہ علاقہ اسلام کی روشنی سے منور ہوا جب سلطان محمود غزنوی نے پنجاب فتح کرکے ایاز کو لاہور کا گورنر مقرر کیا۔

لاہور کو بیس سال تک مغل دارالحکومت رہنے کا بھی شرف حاصل ہوا ، لیکن اگر یہ مغلیہ سلطنت کا دارالحکومت نہ بھی بنتا تو اس کی اہمیت و فضیلت میں کوئی کمی نہ ہوتی ۔ مغل شہنشاہ جہانگیر کی ملکہ نور جہاں نے لاہور کے بارے میں کہا تھا”لاہور رابجان برابر خریدہ ایمجاں دارایم و جنت دیگر خریدہ ایم”

سترھویں صدی میں لاہور کی شہرت یورپ تک جا پہنچی تھی اور اس کے ڈنکے سات سمندر پار بھی بجنے لگے تھے

حسن کی بزم میں اگر ذکر لاہور کا نہ آئے
توہینِ حُسن ہو جاۓ توہینِ بزم ہو جاۓ

لاہور شہر کی فضاکا اپنا ایک طلسم ایک جادوہے اور علامہ اقبال، پطرس بخاری، فیض احمد فیض ، اشفاق احمد، احمد ندیم قاسمی اور انتظار حسین جیسے دانشور بھی اس کے طلسم سے محفوظ نہ رہ سکے۔

طلسمِ ہوش رُبا جیسا شہر ہے لاہور
جو اِس دیار میں جائے لاپتہ ھو جائے

لاہور پاکستان کا پہلا شہر ہے جس کو یونیسکو کیجانب سے "شہر ادب”کا خطاب ملا ہے
شہر لاہور کو ایک دن شہر ادب کا خطاب ملنا ہی تھا۔ آج نہیں تو کل پاکستان نے یہ دن دیکھنا ہی تھا کہ، شہرِلاہورصدیوں سے علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے،شہر لاہور دنیا بھر میں امن کی شناخت ہے، محبت کی پہچان ہے۔ یعنی ادب، عشق ادب، آداب ادب اور اب "شہر ادب ”

شہر لاہور عاشقوں کا شہر ہے، بھلے وہ عاشق مجازی ہوں یا حقیقی اور عشق ایسی نامراد شے ہے کہ اس کا نفرت سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہوتا۔ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہو سکتا ہے۔ عشق میں صرف عشق ہی جائز رہ جاتا ہے شہر لاہور کی بھی یہی تاثیر ہے، جو آنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے، عاشق بنا دیتی ہے۔

اس شہر کی ہواؤں میں اِک اپناںٔیت سی ہے
اس کی گلیوں،کوچوں میں اِک عجب چاہت سی ہے

گزرے لمحوں کی حسین یادوں کا یہاں ٹھکانہ ہے
جو اِک بار لاہور آ جائے پھر اُس نے واپس کہاں جانا ہے

تاریخ گواہ ہے صدیوں سے لاہور بہت سی حکومتوں کا دارالخلافہ رہا اور جو شہر دارالحکومت رہا ہو، وہاں ملازمت کی غرض سے لوگ نہیں آتے بلکہ وہ ثقافتیں آتی ہیں بلکہ بلائی جاتیں ہیں۔نوکری تو ایک بہانہ ہوتا ہے، فطرت اس شہر پہ مہربان ہوتی ہے اور اس شہر کو رنگوں سے بھر دیتی ہے۔

شہرِ لاہور تیری رونقیں دائم آباد
تیری گلیوں کی ہَوا کھینچ کے لائی مجھ کو

شہر لاہور کے خوبصورت باغات کا حُسن آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے تو کبھی اسکی پُرتعیش عمارات دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ لاہور میں کھانے پینے کی اشیا میں ذائقے کا دُنیا بھر میں کوئی نعم البدل نہیں ہے شہر لاہور کی رونقیں دیکھ کر دل باغ باغ ہوتا ہے لاہور شہر میں بسنے والے باشندے زندہ دِل،کھلے ذہن ہر قسم کے تعصبات سے پاک دوسروں کو آگے کرنے،درد مشترک قدر مشترک تہذیبی، ثقافتی، معاشرتی، اخلاقی اقدار کے دلدارہ ہیں۔

خدمت خلق اور ہمارا کردار تحریر: ڈاکٹر حمزہ احمد صدیقی

ان فضاؤں سے ہے مجھے نسبت خاص
شہر لاہور پہ سب شہر لٹا بیٹھا

لاہور بقا کی ایک مثال ہے۔ لاہور کا حال اس کے ماضی کا ایک سلسلہ ہے۔ اس کے مستقبل نے ابھی شکل اختیار کرنی ہے۔ لاہور ہمیشہ لاہور رہے گا، اسے کچھ اور بننے کی خواہش نہیں ہے

کہ اِس سے منسلک ہونا بھی اک سعادت ہے
لاہور شہر نہیں ہے، لاہور عادت ہے

‏ہماری پہچان اخلاق حسنہ . تحریر، ڈاکٹر حمزہ احمد صدیقی

Leave a reply