سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے دو بل پاس کردیئے

باغی ٹی وی : سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے دو بل پاس کردیئے۔سینئر سٹیزن بل اور گھریلو تشدد کی ممانعت بل متفقہ طور پر منظور کر لیے گئے۔سینیٹرفلک ناز چترالی نے گھریلو تشدد کی ممانعت بل میں بچوں کومارنے پر والدین کے خلاف قانونی کارروائی کی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ بعض اوقات بچوں کومارناوالدین کی مجبوری بن جاتی ہے یہ نہیں ہوناچاہیے۔پاس کئے گئے بلوں کے تحت والدین بچوں پر تشدد کریں گے تو جیل جانا ہو گاجسمانی،جنسی ہراسانی،گالیاں اور تشدد کی اجازت نہیں ہو گی بچے بزرگ والدین کو گھروں سے نکالیں تو بھی جیل جاناہوگا۔سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا پہلا با ضابطہ اجلاس چیئرمین سینیٹر ولید اقبال کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاوس میں ہوا۔

اجلاس میں شہادت اعوان،گردیپ سنگھ،محمد طاہر بزنجو، مشاہد حسین سید،سیمی ایزدی،عابدہ محمد اعظیم،قرۃالعین مری اور فلک نازچترالی وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری اوروزارت انسانی حقوق کے حکام نے شرکت کی۔سینیٹر فلک ناز وزارت کے حکام کی نشستوں پر بیٹھ گئی جس پر چیرمین کمیٹی نے ان کوکہاکہ آپ دوسری طرف بیٹھ جائیں سینیٹر ایک طرف بیٹھتے ہیں جس پر وہ سینیٹرز کی لائن میں بیٹھ گئیں۔چیئرمین سینیٹر ولید اقبال نے کہاکہ مجھے چیئرمین کمیٹی منتخب کرنے پر سب کا شکر گزار ہوں چیئرمین کمیٹی بننا میرے لئے بہت بڑا اعزاز ہے میں کمیٹی میں ویرچوئل موجود تھا مگر اس کے باوجود سب نے اعتماد کیا جس پر میں سب کاشکریہ اداکرتاہوں۔سینئر سٹیزن بل اور گھریلو تشدد بل کی منظوری کیلئے چیئرمین سینیٹ نے ٹائم باؤنڈ کیا ہے۔

وزارت انسانی حقوق اگلے اجلاس میں وزارت کی ورکنگ کے بارے میں تفصیلی بریفینگ دے۔یہ کمیٹی پہلے فنکشنل کمیٹی ہوتی تھی اب قائمہ کمیٹی بن گئی ہے اس میں کیافرق ہے۔افسوس ہے کہ سینئر سٹیزن بل قومی اسمبلی کی انسانی حقوق کمیٹی میں ایک سال پنڈنگ رہا۔جاوید اقبال نے کہاکہ سینئر سٹیزن بل قومی اسمبلی میں 1 سال 4ماہ التواء کاشکار رہاہے اور دوسرا گھریلوتشدد کابل5ماہ التواء میں رہا ہے۔وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کمیٹی کوبتایاکہ سینئر سٹیزن بل میں بزرگ شہریوں کو زندگی کے تمام بنیادی حقوق کی فراہمی شامل ہے ہمارے پاس جگہ ہے جہاں سینئر سٹیزن کو رکھا جا سکتا ہے سینئر سٹیزن ہومز کیلئے ہمارے پاس عمارت موجود ہے۔ بزرگ شہریوں کے لیے فنڈز رکھے جائیں گے جس سے ان کی مدد ہوگی۔

اس کی وجہ سے بزرگ شہریوں کو مراعات بھی ملی گئی جن میں کرایوں میں کمی ہوگی ایک کمیٹی بنے گی جو اس قانون کی خلاف ورزی کریں گے ان کے خلاف ایکشن ہوگا۔قانون بن جانے کے بعد رولز بنائیں جائیں گے۔ہمارے پاس ایک عمارت ایف 6میں موجود ہے جس میں بزرگ شہریوں کی رہائش بنائیں گے۔سینیٹرشہادت اعوان نے سینئر سٹیزن ایکٹ کا اطلاق اسلام آباد کے مستقل رہائشیوں پر کرنے کی تجویز دیدی کہ پورے پاکستان کے شہریوں کو اس میں شامل کریں گے تو بعد میں فنڈز کے مسائل آئیں گے اسلام آباد میں چاروں صوبوں سے لوگ آتے ہیں،آگے چل کر ورنہ حکومت کیلئے مشکلات پیش آ سکتی ہے،ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہاکہ اس قانون کا اطلاق اسلام آباد کے تمام سینئر سٹیزن پر ہونا چاہئے،

اس میں اسلام آباد کے مستقل رہائشی کی شرط رکھنا درست نہیں،اسلام آباد میں رہائش بزرگوں کو اس کے تحت حقوق ملنے چاہئے،قرۃالعین مری نے کہاکہ ایگزیکٹو کمیٹی میں وزیر ہوگا تو کتنی کمیٹیوں کی وزیر سربراہی کرے گا۔وزیر کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا ہے۔جس پر حکام نے بتایاکہ وزارت انسانی حقوق چھوٹی وزارت ہے کمیٹیوں کی سربراہی میں کوئی مشکل نہیں ہوتی ہے۔سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہاکہ اسلام آباد میں مستقل رہائش صرف پھوٹوہاری تھے،میرا تعلق لاہور سے ہیں اور تیس سالوں سے اسلام آباد میں رہائش پذیر ہوں۔شہادت اعوان نے کہاکہ اس بل میں لفظ "فلاحی ” کو شامل کیا جائے،

جس پر شیریں مزاری نے کہاکہ یہ لفظ شامل نہیں کیا جا سکتی کیونکہ وزارت انسانی حقوق چیزوں کو انسانی حقوق کی پیرائے میں دیکھتی ہے،اس میں "فلاحی”کوشامل کرنے سے فیور دینا مطلب بنے گا،اس قانون کی خلاف ورزی پر جرمانے کا طریقہ کار بھی واضح نہیں۔سیکرٹری وزارت انسانی حقوق نے کہاکہ ایگزیکٹیو کونسل قانون کی خلاف ورزی پر سزا نہیں دے سکتی جو بھی رولز بنے گا وہ اسی ایکٹ کے تحت ہی بنے گا،شیریں مزاری نے کہاکہ قانون کے تحت کونسل،ایگٹیو اتھارٹی عملدرآمد یقینی بنائے گی۔مشاہد حسین نے کہاکہ بل میں غلطیوں پر برہمی کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ یہ نالائقی ہے کہ وزارت قانون بل صحیح طرح ڈرافٹ نہیں کر سکتی۔چیئرمین کمیٹی ولید اقبال نے کہاکہ وزارت انسانی حقوق اس ایکٹ پر معزز کمیٹی ارکان کے اعتراضات نوٹ کرے۔

مشاہد حسین سیدنے کہاکہ یہ ایکٹ وزارت انتہائی احسن اقدام ہے،ایف نائن میں بہت بڑا کلب ہے اس کو سینئر سٹیزن کلب میں تبدیل کیا جائے،اس میں سینئر سٹیزنز اپنی تنہائی کے لمحات گزاریں گے،وہاں بیٹھ کر چائے پیئں گے،واک بھی کریں گے،ایکٹ کی خلاف ورزی پر جرمانے اور سزاکیلئے وقت کا تعین کیا جائے،اولڈ ایج ہوم میں کوالٹی کنٹرول کا پہلو لازمی مدنظر رکھنا ہو گا،

امریکہ میں اولڈ ایج ہوم بہت بڑا بزنس ہے،سینیٹ کمیٹی وزارت انسانی حقوق بشمول اس بل کے تمام بلوں کی ہر چاہ ماہ بعد رپورٹ طلب کرے۔سینیٹر ولید اقبال نے کہاکہ ایف نائن کلب پر کافی لوگوں کی نگاہ ہیں۔سینیٹرطاہر بزنجو نے کہاکہ قوانین تو ملک میں بہت اچھے بنتی ہیں مسئلہ عملدرآمد کا ہے،آئے روز بندے غائب ہوجاتے ہیں اور صحافی اٹھائے جاتے ہیں،آئین تو اس طرح کی چیزوں کی اجازت نہی دیتی۔وفاقی وزیر شیریں مزاری نے کہاکہ ہماری وزارت نے پہلی مرتبہ جبری گمشدگیوں سے متعلق بل ڈرافٹ کیا،بل اس وقت قومی اسمبلی کی داخلہ کمیٹی کے پاس ہے،مشاہد حسین سید نے کہاکہ جبری گمشدگیاں کسی بھی مذہب ملک کیلئے باعث شرم ہے۔

جس پر ولید اقبال نے کہاکہ کمیٹی کا ہر شخص جبری گمشدگیوں سے متعلق ایک پیج پر ہیں،سب مل کر ملک میں انسانی حقوق کے قوانین پر عمل درآمد کیلئے بھر پور کردار ادا کریں گے۔سینیٹ انسانی حقوق نے معمولی ترامیم کے ساتھ سینئر سیٹزن بل 2021 کو متفقہ منظور کر لیا۔کمیٹی میں گھریلو تشدد کی روک تھام سے متعلق بل کا بھی تفصیلی جائزہ لیاگیا۔شیریں مزاری نے کہاکہ جب میں نے وزارت سنبھالی تو صوبوں میں گھریلو تشدد کے قوانین موجود تھے جبکہ وفاق میں نہیں تھیں،عورتوں کیلئے اسلام آباد میں بینظیر شیلٹر موجود ہیں،بل کے مطابق عدالت متاثرہ شخص کو پروٹیکٹییو کسٹڈی میں دے سکیں گی،اس میں بچے والدین کومارے یا والدین بچوں کو سب اس کے تحت سزا کے مستحق ہوں گے،چودہ سال تک اسلام آباد میں چائلڈ لیبر پر پابندی ہے،انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے تحت چودہ سال تک چائلڈ لیبر پر پابندی ہے۔

سینیٹر شہادت اعوان نے گھریلو تشدد کی روک تھام کے حوالے سے کہاکہ یہ قانون بڑا سخت قانون ہو گا کیا اس میں ناقابل ضمانت سزا دی جائے گی،پوری دنیا میں دو سال کی سزا ہے جبکہ اس میں تین سال ہے،شہادت اعوان نے کہاکہ تین سال سے کم کردیں گے تو قابل ضمانت ہوجائے جس پر کمیٹی نے سزا دوبارہ تین سال کردی۔ سینیٹ کمیٹی نے گھریلو تشدد کی ممانعت کا بل 2021 متفقہ طور پر منظور کر لیا۔سینیٹرفلک ناز چترالی نے کہا کہ چترال میں خودکشی کا رجحان بہت بڑ گیا ہے اس حوالے سے بھی کچھ کیا جائے اس کے ساتھ والدین کی طرف سے بچوں کو مارنا بھی اس بل میں جرم ہوجائے گا جس کے میں خلاف ہو ں بعض اوقات بچوں کو مارنا لازمی ہوجاتا ہے یہ نہیں ہونا چاہیے۔ مشاہد حسین سید نے کہاکہ ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے،میڈیا پر پریشر ہے،میڈیا اتھارٹی بن رہی ہے،پاکستان کو پولیس اسٹیٹ بنایا جارہاہے جمہوریت کے لیے میڈیا کی آزادی ضروری ہے صحافیوں پر حملوں اور جبری گمشدگی پر بھی کمیٹی کو بریفنگ دی جائے۔

شیریں مزاری نے کہاکہ میڈیا اتھارٹی کی بل جو سامنے آیا ہے وہ سابقہ حکومت نے ڈرافت کیا تھا اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے جبری گمشدگیوں پر بل قومی اسمبلی میں آگیا ہے۔ میڈیا اتھارٹی بہت غلط ہے،وہ پچھلی حکومت کی ڈرافٹ تھی،میں نے میڈیا اتھارٹی کی مخالفت کی،پہلی مرتبہ جبری گمشدگیوں کے بارے میں اعلی سطح پر بات ہو رہی ہے۔کمیٹی نے انسانی حقوق سے متعلق قوانین پر عمل درآمد بریفینگ طلب کر لی۔ولید اقبال نے کہاکہ پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال چیلنجنگ ہے،اللہ کرے ہماری انسانی حقوق کی صورتحال "بروکر گھڑی” کی طرح نہ ہو جو صرف دوگھنٹے کیلئے صحیح ٹائم دکھائے،
محمداویس

Shares: