آزادی افکار. تحریر:تحریر حسن ساجد

0
60

اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ
جب کوئی شخص ایمان کی نیت سے اس کلمہ طیبہ کو صدق دل سے پڑهتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے تو اسے ہم مسلمان کہتے ہیں۔ ایک مسلمان کے نزدیک اس کلمہ طیبہ کا دل و زبان سے اقرار کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کے تمام تر معاملات اور اپنی سوچ کو اللہ اور رسول پاک حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکامات کے تابع کر چکا ہے۔ یعنی وہ اپنے آپکو انکی بیعیت میں دیتے ہوئے اللہ رب العزت کے حضور اپنی بندگی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکمل اطاعت کا اظہار کر رہا ہے. جب ایک شخص دائرہ اسلام میں داخل ہو چکا ہو تو اس کے بعد ایک مسلمان کو یہ ہرگز زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے معاملات زندگی میں "میرے نزدیک” ، "میری سوچ کے مطابق” یا "میری رائے یہ ہے کہ” جیسے الفاظ کا سہارا لیتے ہوئے کسی مسئلے کا حل تلاش کرے یا کسی چیز کی وضاحت پیش کرے۔ یہ اصول بالخصوص ایسے معاملات و امور کے لیے اٹل اور ابدی ہے جن معاملات یا امور کے بارے میں اللہ اور خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بالصراحت اپنے احکامات جاری کر چکے ہوں. ایسی صورتحال میں بحیثیت مسلمان احکامات الہی و رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تبدیلی یا ان میں اپنی مرضی کے مطابق گنجائش نکالنا یا ان کی نافرمانی کی کوشش ایک مجرمانہ اور صریح نافرنانی پر مشتمل عمل ہے۔ عقائد و ایمانیات سے روگردانی کا عمل اس سے کہیں بڑا، سنگین اور قابل اعتراض جرم ہے کہ کسی ملک کے قوانین کی خلاف ورزی کی جائے یا ان میں ترمیم کی کوشش کی جائے ۔ یعنی اس سے مراد ہے کہ جس طرح آپ کو کسی ملک کے قوانین میں ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر تبدیلی یا ترمیم کی اجازت نہیں بلکل اسی طرح دینی امور یا قوانین کی ذاتی رائے پر نفی کی قطعی طور پر اجازت نہیں۔

بات کو سمجھنے کے لیے ایک مثال کا سہارا لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ امریکی شہریت کے حامل شخص ہیں تو آپ کو ذاتی پسند و ناپسند سے بالائے طاق ہوکر ان تمام قوانین کی پیروی کرنی ہوگی جو امریکہ میں نافذ العمل ہیں ان قوانین کے سامنے آپکی ذاتی رائے کی مہمل حیثیت ہے اور اگر آپ ان قوانین سے منحرف ہوکر ذاتی رائے کو فوقیت دیں گے تو آپکا یہ عمل ریاستی قوانین سے انحراف اور غداری کے زمرے میں آئے گا جس کی بنیاد پر آپکو ریاستی قوانین کے مطابق جزاوسزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بالکل یہی معاملہ ایک دین کے پیروکار کے لیے ہے کہ جب متعلقہ شخص اپنے دینی احکامات کی روگردانی یا نفی کرے گا یا صریح دینی احکامات پر ذاتی رائے کو فوقیت دے گا تو اسکا یہ عمل گناہ اور قابل جرم گردانا جائے گا۔
گزشتہ چند دہائیوں سے آزادی افکار اور فریڈم آف سپیچ کے نام پر الہامی ادیان بالخصوص اسلام کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ نظریہ اسلام پر قائم وطن عزیز خاص طور پر اسلام دشمن قوتوں کے نشانے پر ہے جس کے عوام کو لبرل ازم، سیکولرازم اور ایتھزم (لادینیت) جیسے جھانسوں میں پھنسا کر اسلامی تعلیمات اور احیائے دین سے دور کیا جارہا ہے۔ چونکہ پاکستان کی زیادہ تر آبادی مسلمان ہے اور یہاں اسلامی حکومت قائم ہے جسکی بدولت یہاں کھلے عام دین دشمنی کی تبلیغ ممکن نہیں اس لیے دین دشمن قوتیں ماڈریٹ مسلمان اور سیکولر طبقہ پیدا کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کوشاں ہیں۔

سیکولرازم کے قائل حضرات "مذہبی” اور "لبرل” لوگوں کے بین بین ہوتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ منافقانہ پالیسی اختیار کیے ہوئے ہوتے ہیں. اگر مزید وضاحت سے کہا جائے تو اردو زبان کا محاورہ ” آدها تیتر آدها بٹیر ” انکی فلاسفی کی مکمل ترجمانی کرتا ہے. یہ لوگ مذہب پر عمل پیرا ہونے کے دعویدار بھی ہوتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ آزادی رائے کے تحت مختلف مقامات پہ احکامات شریعت پر "اپنی سوچ” اور "اپنی فکر” کو فوقیت دیتے ہوئے معاملات زندگی میں اسلام کے قوانین سے روگردانی کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں اس فتنہ کا سامنا ہمیں ملالہ یوسفزائی کے ایک انتہائی متنازعہ بیان کی صورت میں کرنا پڑا۔ ملالہ یوسفزائی نے اپنے بیان میں نکاح جیسے متبرک اور معتبر عمل کا ناصرف انکار کیا گیا بلکہ ہماری نوجوان نسل کو بے راہ روی کی طرف راغب کرنے کی مکروہ کوشش بھی کی۔ ملالہ یوسفزائی کی جانب سے صریح اسلامی احکامات کا انکار اور حضور نبی کریم کی سنت سے روگردانی قابل سزا جرم ہے جس پر حکومت پاکستان، اسلامی نظریاتی کونسل اور عدلیہ کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملالہ کو اپنی حیثیت واضح کرنے کے لیے کسی مناسب پلیٹ فارم پر بلانا چاہیے تھا۔

نظریات کی اس جنگ میں نشانے پر ہماری نوجوان نسل ہے جسے اپنے نصب العین سے ہٹانے اور بے راہ روی کا شکار کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ میں نوجوان نسل سے مخاطب ہوں اور ان کو یہ واضح کردینا چاہتا ہوں اگر اللہ پاک نے آپ کو ایک مسلمان پیدا کیا ہے تو سجدہ شکر بجا لاو کہ تمہیں زندگی بسر کرنے کے لیے ایک جامع اور مکمل نصب العین ملا ہے۔ کیونکہ اسلام محض عبادات و ایمانیات سے جڑا مذہب ہی نہیں بلکہ ایک کامل و اکمل دین اور ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو عقائد، عبادات، معاشرت، معاشیات، اخلاقیات اور معاملات سمیت زندگی کے تمام پہلووں سے متعلق انسان کو مکمل اور بہترین راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس کی پیروی کے دعویدار اور ایک مسلمان شخص کو زیب نہیں دینا کہ وہ ان معاملات کہ بارے میں "اپنی سوچ” یا "اپنی رائے” کو معیار قرار دے جن سے متعلق شریعت محمدی میں تصریح پائی جاتی ہے. میری مسلم نوجوانوں سے درخواست ہے کہ دور حاضر کے تمام دھوکوں اور فتنوں سے بچنے کے لیے "ادخلو فی السلمہ کافته” پر مکمل طور پر عمل پیرا ہوجائیں اور شریعت محمدی کو معیار سمجهتے ہوئے اپنی سوچ کو اسکے تابع کر لیں اسی میں دنیا و آخرت کی بھلائی ہے.
اور دوسری جانب مادر پدر آزاد خیالات کے حامل وہ لوگ جو حکامات شریعت کو ترک کرنے کا جواز ” مگر میرے نزدیک ایسا ہے کہ” کہہ کر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ اپنے اوپر اسلام کی جعلی ملمع کاری کرنے کی بجائے اخلاقی جرات کا مظاہرہ کریں اور اپنی سوچ کو معیار قرار دیتے ہوئے سیکولر یا لبرل یا ماڈریٹ مسلمان کہلوانے کی بجائے لادین یا ایتھیسٹ کہلوانا شروع کر دیں۔ اس دوغلی صورتحال میں آپکا حساب ایسا ہی ہے کہ "دهوبی کا کتا گهر کا نہ گهاٹ کا”۔ اور رہی بات تمہاری فریڈم آف سپیچ، آزاد سوچ یا آزادی رائے کی تو ایسی فریڈم آف سپیچ یا آزادی رائے جو دین اور اپنی روایات سے دور کرے وہ ہمارے نزدیک ایک شیطانی عمل ہے۔ الحمدللہ پاکستان کا نوجوان طبقہ بیدار مغز اور پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا محافظ ہے وہ تمہاری اصلیت سے واقف ہوچکا ہے اور اب تمہارے جھانسوں میں بلکل بھی نہیں آئے گا۔
ایسے سرخوں اور ضمیر فروش خود ساختہ دانشوروں کی نظر حضرت اقبال کے ایک شعر کے ساتھ اجازت چاہوں گا۔ حضرت اقبال نے فرماتے ہیں کہ

اس قوم ميں ہے شوخي انديشہ خطرناک
جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد
گو فکر خدا داد سے روشن ہے زمانہ
آزادئ افکار ہے ابليس کی ايجاد

Leave a reply