ڈو مور سے نو مور تک کا سفر.تحریر: ملک ضماد

0
155

پاکستان کو آزاد ہوئے 74 سال ہو گئے لیکن ابھی تک ہم انگریزوں کے غلام بنے ہوئے تھے
کبھی امریکہ تو کبھی یورپ کے آگے ہم جھکے رہتے تھے
امریکہ امداد اور فنڈز کے نام پے ہمیں پیشہ تو دیتا رہا لیکن ہم سے اپنی مرضی کے کام بھی لیتا رہا
کبھی روس کے خلاف جنگ میں مدد تو کبھی افغان جنگ میں پاکستان کی سرزمین استعمال کی جاتی رہی
کبھی پاکستان کے اندر اسامہ کے لیے آپریشن پاکستان ملٹری اکیڈمی کے ساتھ کر کے چلے جاتے تھے تو کبھی بغیر کسی اجازت یا پیشگی اطلاع کے پاکستان کے جس شہر میں دل کرتا تھا ڈرون اٹیک کر کے پاکستانیوں کو شہید کر کے چلا جاتا تھا اور ہم بات بھی نا کر سکتے تھے کیوں کہ امریکہ ہمیں امداد دے رہا تھا
ہم بولنے کی ہمت بھی کرتے تو ہمیں مختلف پروگرامز جو آئی ایم ایف یا امریکہ کے تعاون سے چل رہے ہوتے تھے ان کو بند کرنے کی دھمکیاں دی جاتی تھی یا پھر پاکستان پر پابندیاں لگانے کی دھمکیان دی جاتی
جس سے پاکستان کے حکمران اپنی غلامی اور خوف کا پورا حق ادا کرتے اور جو جو کچھ امریکہ کہتا پاکستان وہ پورا کرتا بھلے اس مین پاکستان کا نقصان ہی کیوں نا ہو رہا ہوتا

میرے ملک کے بچے عورتیں ہی کیوں نا ڈرون حملوں میں شہید ہو رہے ہوتے
ہمیں تو ڈالرز مل رہے تھے نا
اس طرح پاکستان کا نام پوری دنیا میں ڈرپوک اور غلام کی طرح مشہور ہوا
پاکستان کے سابقہ کرکٹر، موجودہ وزیراعظم عمران خان جب سے سیاست میں آیا اس کا پہلے دن سے مطالبہ رہا کہ امریکہ کی غلامی چھوڑو اور اپنے پاوں پے کھڑا ہونے کی کوشش کرو لیکن کسی نے اس کی نا سنی الٹا اسی پے باتیں شروع کر دی
جب پاکستانی حکمرانوں نے نا سنی تو اس نے خود عوام کے ساتھ مل کر امریکہ کو جواب دینے کے لیے وزیرستان کی طرف لانگ مارچ کیا، عوام کے ساتھ مل کر نیٹو کی سپلائی جو پاکستان سے افغانستان جاتی ہے کو روکے رکھا
اس کے بعد عمران خان کے خلاف بیرونی طاقتیں متحرک ہوئی اس کو چپ کرانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ پاکستان کا درد رکھنے والا لیڈر تھا وہ نا ڈرا اور نا چپ ہوا اپنی آواز بلند کرتا رہا
اس نے ایک ہی بات کو ذہن میں بٹھائے رکھا ہر ملک سے دوستی رکھی جائے گی لیکن وہ دوستی برابری کی سطح پر ہو گی نا کہ ابتری کمتری کی سطح پر

اس طرح جب اس نے اقتدار سنبھالا تو اس نے سب ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی لیکن وہ تعلقات برابری کی سطح پر
اس نے اسلامی ممالک کو اکٹھا کرنے اور مغرب اور یورپ کے پریشر سے نکلنے کے لیے کوششیں کی
اس نے یورپ کے بجائے سعودیہ، ایران، ملیشیاء، ترکی، یو اے ای، قطر اور باقی بھی اسلامی ممالک سے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کردار ادا کیا
امریکہ کو ہر دفعہ منہ توڑ جواب دیا اور بتایا ہم اتحادی اور دوست تو ہیں لیکن یہ بات کبھی نہیں مانی جائے گی آپ اوپر اور ہم نیچے ہیں
ہم برابری کی سطح پر کام کریں گے
اگر امریکہ مجھ سے بات کرنا چاہتا ہے تو اس کو میرے برابر کے بندے کو میرے پاس بھیجنا ہو گا
میں سیکنڈ ٹیئر لیڈر شپ سے بات نہیں کروں گا
پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی دفعہ دیکھنے کو ملا کہ کسی پاکستانی حکمران نے امریکہ کی سی آئی اے کے چیف سے ملنے سے انکار کیا
اس سے پہلے امریکی چپڑاسی کے آگے ہمارے لیڈرز ایسے سر جھکائے کھڑے ہوتے تھے جیسے وہ ہی سب سے بڑے لیڈر ہیں
عمران خان نے انٹرنیشنل میڈیا کو انٹرویو میں واضح کیا جو چہہ میگوئیاں چل رہی ہیں پاکستان دوبارہ افغانستان آپریشن کے لیے اپنے اڈے امریکہ کو دے رہا ہے وہ سب جھوٹ ہے پاکستان کبھی بھی اپنی سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال کے لیے کسی کو نہیں دے گا
اس بیان کے بعد پورے پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند ہو گئے کہ کسی نے تو امریکہ کو منہ توڑ جواب دیا

"”یہ ہے ڈو مور سے نو مور تک کا سفر””

Leave a reply