خود احتسابی .تحریر: مزمل مسعود دیو

0
37

بزرگ فرماتے ہیں کہ جب آپ کسی دوسرے کی طرف انگلی اٹھاتے ہیں تو ذرا غور سے دیکھا کرو کیونکہ اسی ہاتھ کی تین انگلیاں تمہاری طرف اشارہ کررہی ہوتی ہیں اس لیے کسی کو وہ بات کہنے سےُپہلے تین بار سوچو کہ کہیں وہ بات جس پر تم انگلی اٹھا رہے ہو تمہارے اپنے اندر تو نہیں پائی جاتی پھر اگلے کو تلقین کرو ایسا نہ ہو کہ پھر بعد میں شرمندگی اٹھانی پڑے۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے

(لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ ﴿٢﴾ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ 61۔ الصف:2-3) کیوں تم وہ کہتے ہو جو خود نہیں کرتے؟ اللہ کے نزدیک یہ بڑی ناپسندیدہ بات ہے کہ تم وہ کہو جو خود نہ کرو۔

ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس میں اکثریت کا کام دوسروں پر تنقید کرنا ہے لیکن وہی لوگ جب اس تنقید میں زد میں آتے ہیں تو بلبلا اُٹھتے ہیں کیونکہ انکے مطابق وہ معاشرے کے سب سے بہترین لوگ ہیں۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو جو انسان کسی دوسرے کی برائیاں ڈھونڈ رہا ہوتا ہے اس میں پہلے سے وہ برائی موجود ہوتی ہے کیونکہ کہیں نہ کہیں اس کے ذہن میں اس برائی کے خواص موجود ہوتے ہیں۔

خود احتسابی مطلب اپنے آپ کو انصاف کے کٹہرے میں لانا اور خود ہی ملزم، خود ہی وکیل اور خود ہی جج بن کر گنہگار اور بے گناہ کا فیصلہ کرنا۔ گنہگار ثابت ہونے پر اپنے آپ کو سدھارنا اور ان غلطیوں کو چھوڑنے کا ارادہ بنانا۔
اکثر اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ گھر کے اندر باپ خود سگریٹ پیتا ہے۔ کئی لوگ نشہ کرتے ہیں، جوا، زنا جیسی غلط کاریوں میں ملوث ہوتے ہیں لیکن اپنے بچوں کو ان سب سے منع کر رہے ہوتے ہیں۔ گھر کا بڑا ہونے کے ناطے تو درست ہے لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ خود ان برائیوں میں ملوث ہوں اور دوسروں کو اس سے بچنے کا درس دیں۔ پہلے اپنے آپ کو ان برائیوں سے دور کریں اپنے بچوں اور معاشرے کے سامنے ایک نمونہ بنیں پھر آپکی بات کا دوسروں پر بہت گہرا اثر ہوگا۔
سکول وکالجز میں زیادہ تو اساتذہ اپنے کلاس ٹائم میں بچوں کو نہیں پڑھاتے اور کل کے لیے ہوم ورک دے دیتے ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ نوبت آجاتی ہے کہ وہ ہوم ورک بھی چیک نہیں کرتے اسطرح بچوں کے اندر اس استاد کا خوف ختم ہوجاتا ہے اور بچوں کے نزدیک ٹائم پاس کی حیثیت رہ جاتی ہے لیکن اگر آپ انکو دوبارہ کام پڑھنے کے لیے بولو تو اس بات کو ٹال مٹول کردیتے ہیں اس میں قصوروار بچے نہیں وہ استاد ہے جس نے اپنے آپ کو اس مقام تک پہنچایا۔ اگر وہی استاد اپنا محاسبہ کریں تو انہیں پتا چلے گا کہ انہیں جس کام کی تنخواہ ملتی تھی وہ کام انہوں نے سرانجام نہیں دیا اسلیے یہ نوبت آئی۔

بہت سی ایسی مثالیں ہیں جو معاشرے کی تباہی کا سبب بن رہی ہیں لیکن اگر ہر فرد، ادارہ اپنا اپنا محاسبہ کرے تو کوئی شک نہیں کہ بہت ساری برائیوں کا خاتمہ ممکن ہے۔

Leave a reply