غریب کا احساس ‏.تحریر: لاریب اطہر

0
144

ہمارے ارد گرد بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنی زندگی بہت مشکل سے گزار رہے ہیں
اکثر تو ایسے ہیں جو 2 وقت کا کھانا بھی پورا نہیں کر سکتے اور ہم ایک وقت کا اتنا کھانا بنا رہے ہوتے ہیں جو غریب کو مل جائے تو وہ 4 دن اس سے آرام سے گزار سکے
ہم اپنی ضرورت سے زیادہ کھانے کو کچرے میں پھینک دیتے ہیں لیکن پڑوس میں غریب کو اس کی بو تک نہیں لگنے دیتے
اگر وہ ہی کھانا ہم خود سے بچا ہوا ہی کیوں نا ہو پڑوسی ی
کو دے دیں اس کے بچے بھوکے نا سوئیں
وہ کم از کم 2 ٹائم پیٹ بھر کر کھانا تو کھا سکے
اس کے دل سے ہمارے دعائیں نکلیں
اللہ پاک ہمارے گھروں، ہمارے رزق میں برکت ڈالیں لیکن ایسا ہم سوچتے بھی نہیں ہیں
ہم صرف اپنا پیٹ بھرنے کی سوچ میں لگے رہتے ہیں
ہم ہار سنگار تو کر لیتے ہیں غریب کے بچے کو پورے کپڑے بھی نہیں ملتے
ہم پر ہفتے شاپنگ تو کر لیتے ہیں لیکن غریب کو 2 روپے دیتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے
ہم بڑے بڑے ہوٹلوں میں کھانے کھا اور کھلا رہے ہوتے ہیں لیکن غریب کا نہیں سوچتے

قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ” نیکی صرف یہی نہیں کہ آپ لوگ اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لیں بلکہ اصل نیکی تو اس شخص کی ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (آسمانی) کتابوں پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے،اور مال سے محبت کے باوجود اسے قرابت داروں ،یتیموں،محتاجوں، مسافروں، سوال کرنے والوں، اور غلاموں کی آزادی پر خرچ کرے۔یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰة دیتے ہیں اور جب کوئی وعدہ کریں تو اسے پورا کرتے ہیں۔ سختی، مصیبت اور جہاد کے وقت صبر کرتے ہیں۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں
(سورة البقرةآیت177)

قرآن حکیم کی سورة البقرہ ہی میں ارشاد ہے” (لوگ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کیا خرچ کریں۔ فرما دیجئے کہ جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے) مگر اس کے حق دار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتے دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو، بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔“ 

اللہ تعالٰی نے بھی ہمیں غریب کا احساس کرنے کا حکم دیا ہے
خود ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں غریبوں کا احساس، غریب کا ساتھ کر عملی نمونہ بتاتا

محسن انسانیت نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے نہ صرف حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنے کا حکم دیا بلکہ عملی طور پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی ہمیشہ غریبوں، یتیموں، مسکینوں اور ضرورتمندوں کی مدد کرتے

ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد نبوی میں صحابہ کرام کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک عورت اپنی کسی ضرورت کے لئے آپ کے پاس آئی ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام کے درمیان سے اٹھ کر دیر تک مسجد کے صحن میں اس کی باتیں سنتے رہے اور اس کی حاجت روائی کا یقین دلا کر ،مطمئن کر کے اسے بھیج دیا

آپ کا فرمان ہے کہ حاجت مندوں کی مدد کیلئے میں مدینہ کے دوسرے سرے تک جا نے کیلئے تیا ر ہوں

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یارومددگا ر چھوڑتا ہے
جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے ،اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی فرماتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کی سترپوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیا مت کے دن اس کی ستر پوشی فرمائے گا
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندے کے کام میں (مدد کرتا )رہتا ہے جب تک بندہ اپنے مسلمان بھائی کے کام میں مدد کرتا رہتا ہے

اج ہم بھی اگر مل کر اپنے معاشرے میں غریبوں کا احساس شروع کر دیں تو غریبوں کے بچے بھی بھوکے نا سوئیں، ننگے نا گھومیں، اچھے نہیں تو کم از کم سرکاری سکولز میں پی پڑھ سکیں

ہمیں دوسروں کی طرف دیکھنے کے بجائے خود اپنے آپ کو پہلے پیش کرنا ہو گا غریب کا ساتھ دینے کے لیے

Leave a reply