ایڈووکیٹ حامد خان کی عدلیہ اور چیف جسٹس مخالف سخت ترین تقریرکہا آج لاہور ہائی کورٹ کو نیلام گھر بنا کر رکھ دیا ہے

0
69
ایڈووکیٹ حامد خان کی عدلیہ اور چیف جسٹس مخالف سخت ترین تقریرکہا آج لاہور ہائی کورٹ کو نیلام گھر بنا کر رکھ دیا ہے #Baaghi

ایڈووکیٹ حامد خان کی عدلیہ اور چیف جسٹس مخالف سخت ترین تقریر کہا جب قانون نہیں تو آرمی چیف مدت توسیع 6 ماہ کیسے ملی –

باغی ٹی وی : ایڈووکیٹ حامد خان نے کہا کہ صرف ہائی کورٹ سے آؤٹ آف ٹرنز سپریم کورٹ کا جج بنایا پھر اس سے بُرائی چل پڑی بعد ازاں کھوسہ صاحب نے ان دو آدمیوں کو ایسے ہی بنا دیا ایک دفعہ غلط روش چلتی ہے تو رُکنے کو آتی نہیں ہے کیونکہ اور ہمارے پاس پیمانہ نہیں ہے یہ دیکھنے کے لئے کہ کون کس قدر قابل ہے ہم کہتے ہیں جیسے بھی قابلیت ہو یہاں پر قابلیت جج کرنا ان لوگوں کو نہیں آتی جب بات آتی ہے تو فیورٹ نظر آتا ہے اور آپ کے سامنے ہے –

انہوں نے کہا کہ مجھے بہت دکھ ہے کہ اس مسئلے کو ہمارے ایک مرحوم ساتھی ایک مرحوم چیف جسٹس آف ہائیکورٹ مرحوم وقار سیٹھ نے مجھے پچھلے سال جب فون کیا اور کہا کہ انتہا ہو گئی ہے نا انصافی کی 3 جو نئیر ججز لاہور ہائیکورٹ کے مجھ پر اور احمد علی شیخ جو چیف جسٹس ہیں سندھ ہائیکورٹ کے کو نظر انداز کر کے لگائے جا رہے ہیں اور اب اس کو میں چیلنج کروں گا –

حامد خان کے مطابق میں نے کہا بسم اللہ کریں میں اس اصول کے لئے ہمشہ سے لڑتا رہا ہوں جب فقہی کھوکھر کو بنایا تھا اس وقت بھی میں نے چیلنج کیا تھا اور آج میں آپ کا وکیل ہوں اور ان تینوں ججز کی تقرریوں کو میں چیلنج کروں گا اور ہم نے کیا تھا اور بد قسمتی کی بات ہے 6 مہینے یہ گلزار چیف جسٹس میں نے بڑے بڑے دیکھے ہیں لیکن اس کا کمال کوئی نہیں پہلے کیا ہوتا تھا کہ کم از کم کیس لگ جاتے تھے فیصلے صحیح اور غلط ہو جاتے تھے ارشاد نذر خان اور شیخ ریاض بھی تھے غلط فیصلے کرتے تھے لیکن اس چیف جسٹس گلزار کا موقف کیا ہے کیس لگاؤ ہی نہ کیس غائب ہو جاتا ہے پتہ نہیں کہاں جاتا ہے ہوا میں غائب ہو جاتا ہے یا زمین کھا جاتی ہے یہ نیا ڈاکٹرینٹ ہے-

حامد خان نے کہا کہ ناانصافی کا عالم یہ ہو گیا ہے کہ مرحوم چیف جسٹس وقار سیٹھ کا کیس 6 مہینے نہیں لگ سکا آخر کار نومبر میں وہ انتقال کر گئے پتہ نہیں کس وجہ سے اس کے پیچھے سازش تھی مجھے محسوس ہوتا ہے خدا جانتا ہے ایک حق کی بات کرنے والا سینکڑوں ملٹری کورٹس کے فیصلے سے ڈیسائیڈ کرنے والے آدمی کو کس خاموشی کے ساتھ فارغ کر دیا گیا س نے حق کے لئے بات کی تھی کہ سپریم کورٹ میں غلط تقرریاں ہو رہی ہیں ہمیں وہ موقع نہیں ملا آج پھر یہ سب کرنے جا رہے ہیں –

حامد خان نے کہا کہ آج میں خراج تحسین پیش کروں گا پہلے صلاح الدین کو صدر ہائی کورٹ بار سندھ اور پھر اس کی سپورٹ میں ہمارے ساتھیوں نے جن میں مقصود بھلر صاحب نمائند ہیں انہوں نے سپورٹ میں کہا کہ ہم سینیورٹی پرنسپل نہیں توڑنے دیں گے یہ ہے وہ اصلی مسائل جن کا ہم نے سامنا کرنا ہے جن کو لطیف کھوسہ صاحب نے اللہ انہیں کامیاب کرے انہوں نے سامنا کرناہے سامنے کھڑے ہو کر ان کو بتانا ہے کہ آپ کیا کر ر ہے ہیں اللہ کا شکر ہے کہ پھر بھی ہمیں جدو جہد کا فائدہ ہوا ہے قاضی فائز کے کیس کی شکل میں چلئے ابھی بھی ہمیں میجورٹی مل گئی پھرکم میجورٹی ہی صحیح لیکن حق کی بات کرنے والی کم میجورٹی آج بھی ہمیں مل گئی-

سینئیر ایڈووکیٹ نے کہا کہ مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ جب ہم نے قاضی فائز کا کیس شروع کیا تھا ہمیں سپورٹ دوسرے تینوں صوبے سے ملی تھی پنجاب سے وہ لوگ قابض تھے بار پر جن کے خلاف آج الیکشن لڑے جا رہے ہیں انہوں نے کسی نے حق کی بات نہیں کرنی کیونکہ ہمارا اور ان کا اختلاف کیا ہے اصولوں اور مفادات کا، اور مفادات ان کے کیا ہیں کہ چاہے جونئیرز کو لگا دو آدمی ہماری مرضی کا ہونا چاہئے چاہے غلط تقرری کر دو ہماری دوکانیں کھل جانی چاہیئے یہ وہ صورتحال ہے آج لاہور ہائی کورٹ کو نیلام گھر بنا کر رکھ دیا ہے تو یہ وہ گھمبیر مسئلے ہیں جن کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہم سردار لطیف کھوسہ کی قیادت میں ان مسائل کو ساری کمیونٹی کے سامنے لے کر آئیں گے-

انہوں نے الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے مزید کہا کہ اسی طرح جو تقرریاں جس انداز سے کی گئی ہیں لاہور ہائی کورٹ کی کس کو نہیں پتہ ان میں کون کون تھے اور کس کے پسندیدہ ہیں اور کس طرح لگائے گئے ہیں پیچھے کون ان کی رسی مضبوط کررہا ہے اس وقت ایک جج شوکت صدیقی کا وکیل ہوں میں ان کی تقریران کا جواب پڑھ رہا تھا بہت دشواری سے گز رہا ہوں اتنا واضح کیس لیکن مجھے بہت دنوں سے بحث کرنی پڑ رہی ہے بہر صورت اس نے یہ کہا کہ اب بینچز بنوائے جا رہے ہیں اور مرضی کے فیصلے لئے جا رہے ہیں تو میں نے یہی کہا کہ بڑی بات ہے کہ ایک جج بڑی ہمت والا نکلا یہاں تو ساری کی ساری پارلیمنٹ ان کے اشارے پر چلتی ہے-

انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے سامنے ہے کہ ایک چیف آف آرمی سٹاف تین سال کی توسیع مانگ رہا ہے ہمارے سپریم کورٹ نے بڑی جرات کی اور نوٹس دے دیااس کے بعد دو دن نہیں لگے اور سب کچھ جو ہوا آپ سب کے سامنے ہے کہتے ہیں 6 مہینے کا ٹائم دیتے ہیں بھئی آپ خود ججمنٹ دے رہے ہو کہ قانون میں کہیں اجازت نہیں ہے توسیع کی آپ کس قانون کے تحت 6 مہینے کی توسیع دے کر کہتے ہیں کہ آپ اس کا فیصلہ کریں قانون سازی کریں 6 مہینے کہاں سے پھر بات ہوہی آگئی انسٹیٹیوشنل کیپچر ہوا ہوا ہے اس کے بعد جو کچھ ہم نے دیکھا بڑی بڑی باتیں کرنے والی سیاسی پارٹیز کس طرح سے ڈھیرہوئی ہیں توسیع دینے میں تو یہ وہ مسائل ہیں جن کا ہم نے سامنا کرنا ہے آنے والے وقتوں نے سامنا کرنا ہے-

حامد خان نے کہا وہی میں عرض کر رہا تھا کہ ایک بیچارے جج کو ڈرانا کیا یہ تو ساری پارلیمنٹ کو ڈرا دیا جاتا ہے لیکن ہمارے پاس ایک ہی رسہ ہو سکتا تھا آزاد عدلیہ جس پر اس وقت پوری طرح سے حملہ آوری ہے کیا قصور ہے قاضی فائز عیسیٰ کا آزاد جج ہے حق کی بات کرتا ہے اس نے یہ لکھ دیا ہے کہ قانون کے مطابق کام کریں آئین کے تحت اپنا قانون پڑھیں آپ کا کام کسی کو اٹھانا یا بیٹھانا نہیں ہے یہی بات کہی نہ اس نے لیکن آج تک اسے بخشا نہیں جا رہا ہے-

انہوں نے کہا کہ دوسرے قسم کے ریویو بھی سامنے آ رہے ہیں یہ وہ ساری چیزیں ہیں اگر وکیل نوٹس نہیں لیں گے اگر وکیل یہاں پر کھڑے نہیں ہوں گے تو اس عدلیہ میں جرات نہیں ہے کہ وہ کہیں کھڑی ہو سکے آج ہمارے حق میں فیصلہ نہ ہوتا قاضی فائز عیسٰی کا اگرباہر سے دوسرے صوبوں سے ہماری بیشتر بار ایسوسی ایشنز پنجاب میں تو بہت کم ہمیں اس وقت لیکن لاہور ہائیکورٹ بار ہمارے ساتھ کھڑی تھی ہمارے ساتھ لیکن ملتان اور اسلام آباد کی اور کچھ ججز میں ہمت ہوئی تو سکس ٹو فور ہمیں فیصلہ مل گیا-

حامد خان نے کہا کہ یاد رکھیں کبھی بھی بار جوڈیشنل آزاد نہیں ہو سکتی جب تک بار آزاد نہ ہو اور سب سے بڑی افسوسناک بات یہ ہے کہ ہماری بار کے اوپر حملہ ہوا ہے اس کی آزادی ختم کی گئی ہے آج ہماری ساری لڑائی ہی یہی ہے ساری جدو جہد ہی یہی ہے کہ ہم آزادانہ بار بنانا چاہتے ہیں ہم بار کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہی آزاد جوڈیشری ہو گی لیکن اس وقت سب سے بڑا چیلنج جوڈیشنری انسٹی ٹیوشنز کو بچانا ہے ان ہاتھوں سے بچانا ہے جن کو آپ مجھ سے زیادہ سمجھتے ہیں بڑی باتیں پہلے دوستوں نے کُھل کر کی ہیں ان ہاتھوں سے بچانا ہے-

انہوں نے مزید کہا کہ خدارا اس جوڈیشنل انسٹی ٹیوشن جو پاکستان کا سب سے پُرانا جوڈیشنل انسٹی ٹیوشن ہے لاہور ہائی کورٹ سب سے معتبر انسٹی ٹیوشن ہے اس کو عدالت فروشوں سے بچانا ہے اور یہ آج کا سب سے گھمبیر مسئلہ ہے اور یہ میں یا لطیف کھوسہ کا مسئلہ نہیں یہ ہماری آنے والی نسلوں کا مسئلہ ہے لاہور ہائی کورٹ کسی طرح سے ان لوگوں کے ہاتھ چڑھ گئی جو کسی حد تک چڑھ چُکی ہے اگرہم اس کو واپس نہ لے کر آئے تو پھر اس کے بعد اس کا مستقبل بہت تاریک ہے تواسی لئے ان حالات میں آپ سے اپیل کروں گا کہ نہ صرف لطیف کھوسہ کو منتخب کیجیئے گا بلکہ پورے پینل کو منتخب کیجئے گا-

Leave a reply