آج کل الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا ہو یا سوشل میڈیا گلی چوراہوں ایک ہی بات پہ بحث ہورہی کہ آزاد کشمیر کے عام انتخابات میں جیت کا سہرہ کس پارٹی کے سر سجے گا یہ تو 26 جولائی کو پتا چلے گا مگر اس وقت انتخابی دنگل کا معرکہ بہت زور وہ شور سے شروع ہو چکا ہے۔ بڑی پارٹیوں کو ٹکٹ کی تقسیم میں ہر حلقے میں مشکل کا سامنا ہے۔ سفارش، اقرباء پروری، مرکز کی پسند اور ناپسند، سینئر رہنماؤں کی دو دو حلقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش نے پارٹیوں میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع کر دیا ہے۔ ہر ایک حلقہ سے ہر جماعت سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے مرکزی قیادت اور لیڈران کے ساتھ انتخابی مہم کا آغاز کر لیا ہے۔
اب ایک نظر آزاد کشمیر پہ ڈالتے ہیں۔آزاد کشمیر ریاست جموں و کشمیر کا وہ حصہ ہے جو اس وقت پاکستان کے زیر انتظام ہے۔ اس کا باقاعدہ نام ریاست آزاد جموں و کشمیر ہے۔ یہ علاقہ 13،300 مربع کلومیٹر (5،135 مربع میل) پر پھیلا ہے۔ آزاد کشمیر کا دارالحکومت مظفرآباد ہے اور ریاست آزاد جموں و کشمیر کی آبادی اندازا 40 لاکھ ہے۔ آزاد کشمیر میں 10 اضلاع، 19 تحصیلیں اور 182 یونین کونسلیں ہیں۔ آزاد کشمیر کے اضلاع میں ضلع باغ، ضلع بھمبر، ضلع پونچھ، ضلع سدھنوتی، ضلع کوٹلی، ضلع مظفر آباد، ضلع میر پور، ضلع نیلم، ضلع حویلی اور ضلع ہٹیاں شامل ہیں۔
آزادکشمیر کے 29 حلقوں میں 22 لاکھ 37 ہزار 58 ووٹ جبکہ مہاجرین کے 12 حلقوں کیلئے 4 لاکھ 44 ہزار 634 ووٹ ہے ،گو کہ یہ انتخابات پاکستان کے حالات یا آزاد خطے کے تقدیر بدلنے کے لئے اتنے اہم نہیں ہوتے لیکن کشمیر میں انتخابات کا موسم آتے ہی ہر گھر ، بازار ، چوراہے اور گلی کوچوں میں سیاست پر بحث کی جاتی ہے۔

ووٹ کا فیصلہ برادری کا سربراہ کرتا ہے۔ بڑی برادریاں الیکشن میں اپنا نمائندہ منتخب کراتی ہیں جبکہ چھوٹی برادریوں کو اپنی بقاء کے لئے ان کا ساتھ دینا پڑتا ہے۔ جو برادری یا فرد بڑی برادریوں سے ٹکرانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو داستان عبرت بنادیا جاتا ہے آزاد کشمیر کے انتخابات کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو ہر دور میں یہ انتخابات خونی تصادم کی شکل اختیار کرتے رہے ہیں۔ برادریاں اپنی گردن بلند رکھنے کے لئے باقی برادریوں کی گردنیں اتارنے سے گریز نہیں کرتیں۔جیت ایک سیاسی جماعت یا ایک برادری کی ہوتی ہے مگر شکست انسانیت کی ہوتی ہے۔ ایک نشست کی خاطر عزتوں کی پامالی ہوتی ہے، تعلقات اور دوستیوں کی قربانیاں دی جاتی ہیں۔
موجودہ الیکشن میں بھی تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے انتخابی منشور کا اعلان کیا۔ مگر بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا کہ کسی بھی سیاسی پارٹی نے کشمیر کی آزادی کے لئے جدوجہد کو کوئی بہتر طریقے سے اپنے منشور میں شامل نہیں کیا ۔ایسا لگتا ہے جیسے کشمیری شہدا کے خون کے ساتھ غداری کی جا رہی ہے اور معصوم کشمیریوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔

آزاد کشمیر میں انتخابی مہم اس وقت غیرریاستی یعنی پاکستانی سیاسی پارٹیوں کے بڑے لیڈر چلا رہے ہیں۔ مقامی قیادت بڑی حد تک پس منظر میں چلی گئی ہے۔ پاکستانی لیڈرز اپنی انتخابی تقریروں میں بالعموم وہی زہر اگل رہے ہیں جو پاکستان میں ان کا خاصہ ہے یعنی گالم گلوچ، دشنام طرازی، الزامات اور بہتان، جوش خطابت میں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں، اسے ابھی پاکستان کا حصہ بننا ہے۔ 
کہیں کشمیر سے تعلق ظاہر کرنے کے لئے فوٹو شاپ کی مدد لی جارہی ہے تو کہیں پہ وہی نعرہ روٹی کپڑا مکان تو کہیں اس تبدیلی کی رٹ لگائی جارہی ہے جو مجھ سمیت بہت سے پاکستانی امید لگائیں بیٹھں ہیں اب دیکھنا یہ ہے کشمیر کے لوگ کس پارٹی کے سر پہ اقدار کا تاج سجاتے ہیں یہ فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔

Shares: