خود اعتمادی کی زبردست کمی کا شکار رھنا ہر وقت محسوس ھوتی ھوئی دل کی بے سکونی جھوٹ کے نتیجے پہ ملنے والی قدرت کی طرف سے خود کار سسٹم کے تحت روحانی جسمانی ذہنی بیماریاں اگر جھوٹ پکڑا جائے تو دوسروں کا ہمیشہ کیلئے آپکی ذات پر سے اعتبار ختم ہو جاتا ہے جھوٹ بولنے والا ہمیشہ کم ظرفی کا شکار رھتا ھے کیونکہ اسکی سوچ مثبت سوچ سوچنے کی اہلیت سے خالی ھو جاتی ھے جھوٹ بولنے والے کی سوچ ایک کے بعد دوسرا فراڈ کرنے کا موقع ڈھونڈتی ھے یعنی ایسا انسان چاہ کر بھی کسی کے ساتھ بھی مخلص نہیں بن سکتا جھوٹ آپ سے اپکے مخلص سچے محبت کرنے والے دوستوں رشتوں کو چھین لیتا ھے کیونکہ مخلص لوگ جب آپکے لفظوں اور عمل میں جھوٹ اور دغا بازی دیکھتے ہیں تو نفرت کرنے لگتے ہیں کیونکہ انکا مان ٹوٹ جاتا ھے جھوٹ کی عادت بڑھتی بڑھتی ہر صورت منافقت تک پہنچ جاتی ھے یعنی یہ چھوٹی سی معصوم سی عادت سمجھی جانے والی گندی عادت بڑے بڑے گناہوں کو مقناطیس کی طاقت کے برابر اپنی طرف کھینچتی ھے سائنس کے پجاری بھی ذرا کان کھولیں سائنسی مشین کے مطابق جھوٹ ایسے ہارمونز اور کیمیکل جنریٹ کرتا ھے جو کینسر ، موٹاپے ، ڈپریشن ، مستقبل کا خوف ، نشے کی عادت ، جوا کھیلنے کی عادت ، بدکرداری ، اپنے روز مرہ کے کسی بھی کام میں پوری توجہ کا فقدان ، ماضی کے غم میں مستقل رھنے والے پیٹرن بنا دیتا ھے ایسا اس لئے ھوتا ھے کہ جب ہم جھوٹ بولتے ہیں اس وقت ہمارے نیورانز مطلب ذہنی مشینری قدرتی طریقہ کار سے ہٹ کر غلط رستے پر سوار ھو جاتی ھے جبکہ انسانی ذہن اور جسم قدرتی خودکار بنیادوں پہ چلنے والی مشین ھے
قدرت نے دماغی سسٹم کی سیٹنگ اپنے معیار پہ رکھی ھے لیکن جب انسان اس معیاری سسٹم کو اپنے بے حودہ معیار پہ سیٹ کرتا ھے اس وقت نیورانز کی آمد و رفت میں اچانک ایکسیڈنٹ ھونا شروع ھو جاتے ہیں آگے آپ خود سمجھدار ہیں سسٹم کے اشاروں پہ چلنے والی ٹریفک پرسکون چلتی رھتی ھے جبکہ اپنی مرضی سے چلنے والی اشارہ توڑنے والی بے ہنگم گاڑیوں کی ٹکر کس انداز میں ھو سکتی ھے جسم کا کتنا نقصان ھو سکتا ھے اسکا اندازہ اپ لگا سکتے ہیں یقینا آپ جان چکے کہ گھر بیٹھے روحانی ، جسمانی اور ذہنی صحت کا اتنا بڑا نقصان کوئی جاہل گوار ہی کرے گا لیکن یقینا آپکی ذات اور جہالت میں زمین آسمان کا فاصلہ موجود ھے یہ میں جانتی ھوں جھوٹ چھوٹی موٹی بیماری نہیں ھے جھوٹ وہاں ملتا ھے جہاں انسان اندر سے کمزور ھو اپنے خیالات ، احساسات ، جزبات اپنی خوشیوں اپنے دکھوں کو بیان کرنے کی ہمت نہ رکھتا ھو ڈرا ھوا ھو جھوٹا انسان جھوٹ کی مدد سے رشتہ تو بنا لیتا ھے مگر اسے نبھانے کی اہلیت نہیں رکھتا کیونکہ جھوٹ اپنے ساتھ 10 اخلاقی بیماریاں بھی اسی سوچ میں پیدا کر دیتا ھے جو کسی رشتے کو مسمار کرنے کیلئے کافی ھوتی ہیں
چنانچہ قرآن کریم میں ایک جگہ ہےکہ”تم بت پرستی کی گندگی اورجھوٹی بات کہنے سے بچو”(حج)اور رسول اکرم ﷺ نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ’تین چیزیں منافق کی نشانیوں میں سے ہے، جب بات کرے توجھوٹ بولے،کسی سے کوئی وعدہ کرے تو اسکی خلاف ورزی کرے،اورامانت میں خیانت کرے'(بخاری)اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ اگرچہ وہ روزہ رکھے،نماز پڑھے اور لوگ اسکو مسلمان سمجھیں مگر پھر بھی وہ منافق ہے،غور کرنے کی بات ہے کہ جھوٹے لوگوں کے لئے کتنی سخت وعیدیں آئی ہوئی ہیں،کیا ہمارا کوئی بھی کام آج جھوٹ سے خالی ہوتا ہے؟ہرگھنٹہ اور ہر منٹ بلکہ ہرہر سکنڈ پر آج لوگ جھوٹ بول رہے ہیں،پھر کیا اس جھوٹ میں ہم شامل نہیں؟کیا ہمیں اسکا محاسبہ نہیں کرناچاہئے؟ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ’اگر کوئی مذاق کے طور پر بھی جھوٹ بولے تو اس پر اللہ کی لعنت ہے”ایک اور حدیث میں ہے کہ’ایسے جھوٹ بولنے والوں کے لئے ہلاکت ہے جو لوگوں کو ہنسانےکے لئے جھوٹ بولتا ہے،اسکے لئے ہلاکت ہے اسکے لئے تباہی ہے'(ترمذی)ان احادیث کی روشنی میں ہمیں غور کرنا چاہئے کہ کیا ہماری مجلسیں، محفلیں،ہوٹلیں، بازار،دکان اور ہمارے گھر وغیرہ اس سے محفوظ ہیں؟نہیں تو آخر اسکی وجہ کیا ہے؟جھوٹ بولنا بہت بڑاگناہ ہے مگر دو متحارب فریقوں یا دو لوگوں کےدرمیان مصالحت کرا دینا اور اسکے لئے محض صلح جوئی، فتنہ و فساد کے خاتمے کی نیت سے کچھ جھوٹی باتیں کہہ دینا جائز ہے اور اسکی اجازت دی گئی ہے،ایسا شخص جھوٹا اور گناہ گار نہیں کہلائے گا،مگر یہ ضروری ہے کہ وہ باتیں خیرو بھلائی کی ہی ہوں،جو ایک دوسرے کی طرف منسوب کرکے پہنچائی جائیں،ان میں فسق وشرک نہ ہو،بخاری کی حدیث میں ہے”وہ آدمی جھوٹا نہیں جو لوگوں کے درمیان صلح کراتا ہے پھر خیر کی باتیں پہنچاتا ہے یا اچھی باتیں کہتا ہے”اور مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ صرف تین مواقع ایسے ہیں جہاں جھوٹ بولنے کی اجازت دی گئ ہے،ایک شوہر بیوی میں اختلاف کو دورکرنے کے لئے،دوسرے مسلمانوں میں باہمی تعلقات کی اصلاح کے لئے اور تیسرا میدان جنگ میں،
علماء نے لکھا ہے کہ ان کے علاوہ اور کسی جگہ یاکسی مو قع پر کذب بیانی اورجھوٹ بولنا ہرگز درست نہیں،لیکن ہاں مجبوری کی حالت اس سے مستثنی ہے،اگر انسان کو مجبور کردیا جائے اور اسے اپنی جان کا خدشہ لاحق ہو تو ایسی صورت میں جھوٹ بولکر جان بچانے کی رخصت دی گئی ہے،اس صورت میں وہ گنہگار نہیں ہوگا،جھوٹ ایسی منحوس چیز ہے کہ اسکے بولنے والے کے پاس سے فرشتے بھی دور ہٹ جاتےہیں،ایک حدیث میں ہے کہ”جب بندہ جھوٹ بولتاہے تو فرشتے اسکی بدبو کی وجہ سے ایک میل دور چلے جاتےہیں”(ترمذی)ایک مرتبہ رسول اکرم ﷺ سے پوچھا گیا،کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہاں،پھرسوال کیا گیا کیا مومن بخیل ہوسکتا ہے؟فرمایا ہاں،پھر پوچھا گیا کیامومن جھوٹا ہوسکتا ہے؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا نہیں،دیکھا آپ نے اس حدیث میں مسلمان بزدل بھی ہوسکتا ہے،بخیل بھی ہوسکتا ہے لیکن جھوٹا نہیں ہوسکتا،ہمارا حال یہ ہے کہ کوئی بھی کام ہمارے پاس جھوٹ کے بغیر نہیں ہوتا،پھر ہمارے حالات کیسے درست ہوں؟ایک دوسری حدیث میں آپ نے صراحت کے ساتھ فرمایا کہ’تم جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ گناہ کی طرف لےجاتا ہے اورگناہ جہنم کی طرف لےجاتا ہے،آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا ہے اورجھوٹ کے پھیرنے میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی کے نزدیک کذاب لکھ دیاجاتا ہے،دراصل جھوٹ ایسی بری صفت ہے جو کسی مسلمان کے شایان شان نہیں،ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم جھوٹ بولنے سے احتیاط کریں اورہمیشہ سچ بات کہنے کی عادت ڈالیں،اپنے بچوں کے دلوں میں جھوٹ سے نفرت پیدا کریں،سچائی کی اہمیت اورمحبت اپنے بچوں کے دلوں میں ڈالیں اور یہ بتائیں کہ سچائی ہمیشہ نجات دلاتی ہے اور جھوٹ انسان کو ہلاک وبرباد کر دیتا ہے،بلکہ ایک حدیث میں ہےکہ آپ ﷺ نے فرمایا’جو شخص جھوٹ بولنا چھوڑ دے،اگرچہ وہ باطل ہے تواللہ تعالی اسکے لئے جنت کے صحن میں گھر تعمیر فرمائیں گے'(ترمذی)لہذاٰ کوشش کریں کہ ہم ہرجگہ سچی بات کریں اورسچ کواپنی زندگی میں داخل کریں،تب ہی ایک صالح اورپاکیزہ معاشرہ وجود میں آسکتا ہے جو وقت کی بھی اہم ضرورت اور انسانی تقاضا بھی ہے اللہ تعالیٰ ہم سبکو جھوٹ سے بچائے اورہمیشہ سچ بولنے، سچی بات کہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بھائیو اور بہنو یاد رکھنا ایک سچ سو سکھ لاتا ھے جبکہ ایک جھوٹ آپکی ذات میں ہزار کھوٹ پیدا کرتا چلا جاتا ھے کیا فائدہ جھوٹ کا ، ، ، اور ، ، ، جھوٹے کے ساتھ کا ۔۔۔
تحریر یاسمین ارشد
twitter.com/IamYasminArshad
@IamYasminArshad