قرآن پاک ایک مکمّل ضابطۂ حیات ہے، جس میں زندگی کے ہر شعبے سے متعلق علم وحکمت کے اسرار پوشیدہ ہیں، لیکن اُن اسرار و رموز تک صرف صاحبِ علم و حکمت ہی پہنچ سکتے ہیں۔ ایسے ہی رازوں کو جاننے کے لیے قرآنِ پاک میں بیان کیا گیا ــ کہ’’ کیا تم غور نہیں کرتے‘‘ اس آیت کے ذریعے اللّہ پاک اپنے بندوں کو غور و فکرکی دعوت دیتا ہے، تاکہ وہ اس پر عمل پیرا ہوکر آگہی وشعورحاصل کر سکیں۔ یہاں ایک بات کا ذکر ضروری ہے کہ کسی مخصوص شعبے سے متعلق تعلیم حاصل کرلینا ہی علم نہیں ،علم بہت وسیع معنی رکھتا ہے۔ اسی لیے علم کی پیاس کبھی نہیں بجھتی، جیسے جیسے انسان علم کے سمندر میں غوطہ زن ہوتاچلا جاتا ہے، ویسے ویسے عِلم کی تشنگی بھی بڑھتی اور فکر میں وسعت پیداہوتی جاتی ہے۔تعلیم کے بغیر انسان کے عقل و شعور میں ادراک کی قوّت نہیں ہوتی۔

علم کے بغیر انسان اپنے آپ کو نہیں پہچان سکتا ، تو پھر وہ زندگی اور کائنات کی دوسری اشیاء اور حقائق کی معرفت کیسے حاصل کرسکے گا،اس لیے اسلام نے اوّل دن سے اپنے ماننے والوں کو علم کے حصول کی ترغیب دی اور نہ صرف طلبہ بلکہ معلّمین کے اعلیٰ رُتبے کا بھی تعیّن کردیا۔بہ حیثیت مسلمان ہمارے لیے رب کی معرفت اور قرآن و حدیث کے علوم کا حصول نہایت ضروری ہے۔ کیوں کہ اس کے ذریعے ہی ہم اپنے مقصدِ تخلیق کو جان سکیں گے، لیکن زندگی گزارنے اور دنیا کے قدم سے قدم ملا کر چلنے کے لیے دنیاوی علم کے حصول کی اہمیت بھی ناگزیر ہے۔تاریخ کے صفحات پلٹ کر دیکھیں، تو پتا چلتا ہے کہ علم کے ذریعے مسلمانوں نے دنیا پر حکمرانی کی ، طبیعات ہو، فلسفہ، کیمیا،ریاضی، جغرافیہ یا کوئی اور سائنسی مضمون ہرشعبے میں مسلمان سائنس دانوں نے تحقیق و عمل کے ذریعے اپنا ایک نام، ایک مقام پیدا کیا، مگر جب ہم نے اپنے اجداد کی میراث، ان کی تعلیمات کو فراموش کیا.

علم تحقیق وعمل سے دُور ہوئے، تو ہمارا زوال شروع ہوگیا، جو آج تک عروج میں نہ تبدیل ہو سکا۔ آج مغربی عوام تحقیق کے شعبے میں ہم سے کہیں آگے ہیں۔ کئی ایسے غیر مسلم سائنس دان بھی ہیں، جنہوں نے قرآن کا مطالعہ کرکے تحقیق و عمل کو آگے بڑھایا۔ ہمارے اسلاف کی لکھی گئی کتب ، ان کے نظریات کو بنیاد بنا کرمغربی اقوام دنیا میں اپنا نام بنا چُکی ہیں اور ہم محض اُن کی ایجادات سے مستفید ہورہے ہیں۔غور کرنے کی بات یہ ہے کہ مغرب برق رفتاری سے ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے تو بڑھ رہا ہے، مگر اس نےکتاب سے اپنا رشتہ نہیں توڑا۔ بس ہو یا ٹرین کا سفر، بچّوں سے لے کر بوڑھوں تک ہر کوئی کتب بینی میں مصروف نظر آتا ہے یہ الگ بات ہے کہ موبائل فون اور ٹیبلیٹ نے سب کچھ بدل دیا ہے ، جب کہ ہمیں تو اللّہ کا کلام، قر آن پاک پڑھنے تک کا وقت نہیں ملتایا یوں کہہ لیجیے کہ ہم وقت نکالنا ہی نہیں چاہتے۔

دوسری جانب اگر نصابی کتب کی بات کی جائے، تو ہمارا تعلیمی نظام کچھ ایسا ہے کہ بچّے سمجھ کر پڑھنے کے بجائے رٹّالگانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمارا علم صرف اور صرف ڈگری کے حصول تک محدود ہو چکاہے۔ حالاں کہ علم تودراصل کسی شئے کے جان لینےاور سمجھ لینے کا نام ہے۔ ہر ملک کے تعلیمی نظام میں دنیاوی، معاشرتی اور مذہبی تعلیمات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے نصابِ تعلیم ترتیب دیا جاتا ہے، مگر بد قسمتی سےہمارے ملک پاکستان میں ایسا کوئی نظام وضع نہیں کیا جا سکا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوان تعلیم یافتہ تو ہیں، لیکن تربیت یافتہ نہیں۔ نسلِ نو ،رکھ رکھاؤ بزرگوں کے ادب و احترام اور بھائی چارگی سے بہت دُور نظرآتی ہے ۔ افسوس ، صد افسوس کہ ہم انگریزی بولنے کو تو فخر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، لیکن اپنے بچّوں کوعربی زبان نہیں سکھاتےکہ جس میں کلام ِ الٰہی کا نزول ہوا ۔ ہمیں کبھی یہ خیا ل بھی نہیں آتا کہ جب تک نئی نسل قر آن مجید سمجھے گی نہیں، تب تک اُس پر بہتر طور پر عمل کیسے کرے گی؟ذرا سوچیں، اگر ہمارے بچّے عربی زبان پر بھی مہارت حاصل کرلیں ، توانہیں اللّہ تعالیٰ کے احکامات اور احادیث سمجھنےمیں کس قدر آسانی ہوجائے گی۔ چنانچہ اپنے بچوں کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کی جانب ضرور راغب کیجئیے ۔ اللّہ کی خوشنودی کا سب سے بڑا ذریعہ بھی یہی ہے ۔

@ReadinWakil

Shares: