مزید دیکھیں

مقبول

بیٹیوں کی شادی اور غربت .تحریر:حنا

آج کل ہمارے معاشرے میں یہ رواج بنتا جا رہا ہے ۔چاہے لڑکی غریب ہے یا امیر ۔۔خواب سبھی کے ایک سے ہے ۔لڑکا گاڑی والا ہو ۔بنگلے والا ہو ۔۔ہمارے بزرگ کہتے تھے جتنی چادر ہو اتنے پاوں پھلاو ۔۔ہمارا اسلام کہتا ہے ۔لالچ بری بھلا ہے ۔۔بیٹی کا پہلا رشتہ آئے اگر لڑکا اچھا ہو تو فورا شادی طے کر دو ۔لیکن آج کل رواج ہے کہ پہلے بیسوں رشتے ٹھکرای جانے ۔۔اور پھر جب شادی کی عمر گزر جانی تو خود وہی رشتے ڈھونڈنے لگ جانا ۔۔پھر کہنا ملے تو سہی کوی ۔۔بس کر ہی دینی ہے ۔۔اور پھر اچھا رشتہ ملتا نہیں ۔۔دوسری طرف ایک طبقہ جو گیارہ بارہ سال کی بچیوں کی شادی کری جاتے ہیں ۔سولہ سترہ سال کے لڑکوں ساتھ ۔۔آپ جانتے ہو ۔۔معذوری کی شرح بڑھتی جارہی ہے ۔۔۔کبھی نوٹ کیا ہے بارہ تیرہ سال کی بچی جسے بمشکل دو وقت روٹی کھانے کو ملتی ہو اس سے سالہا سال بچے پیدا کرواتے رہنا اور امید رکھنا کہ وہ زندہ بھی رہے ۔

۔کبھی گیلی مٹی کے سانچے بنتے دیکھے ہیں۔۔۔نہیں نہ ۔۔تو ایک کمزور بچی کیسے صحت مند بچہ پیدا کر سکتی ہے ۔۔آج بھی ہمارے ہاں کچھ جگہوں پر جہالت کا سماں عام ہے ۔۔۔جنھوں نے عورت کو صرف کام والی یا بچے پیدا کرنے والی مشین سمجھا ہوتا ہے ۔۔پتہ نہیں کیوں لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ زندگی کا مقصد صرف شادی نہیں ہوتا ۔۔۔۔میرے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے لڑکا لڑکی بالغ ہو تو ان کے رشتے طے کر دو تاکہ وہ گناہ سے بچ سکیں ۔۔لیکن بالغ ہونے کو صرف ان کے جسم میں بدلاو کا مطلب نہیں گیا ۔بلکہ عقل بھی ہو۔۔بچی کی عمر کم از کم سترہ اٹھارہ تو ہو اگر آپ کو زیادہ ہی جلدی ہے اپنی بیٹی کو گھر سے نکالنے کی اور لڑکا کم از کم اٹھارہ سے اوپر کا ہو ۔ایسا نہیں کہ لڑکی بارہ تیرہ سال کی اور لڑکا سولہ سال کا جو لڑتے لڑتے زندگی گزارے اور جوانی میں بیس بار طلاق کا لفظ بھی بول چکے ہیں ایسی عمر میں ان پر شادی کا بوجھ ڈالنا اور سمجھنا کہ وہ عقل مند ہو گے ۔۔بالکل نہیں پھر لڑائ جھگڑے لڑائ جھگڑے نہیں قتل و غارت تک پہنچ جاتے ہیں ۔ایسا ہی تو ہورہا آج کل طلاق اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ لفظ ہے ۔لیکن بہت سارے لوگ بے شمار سمجھدار اچھے بھلے لڑائ جھگڑے میں طلاق بول کر پھر سے ویسے کے ویسے ساتھ رہ رہے ہوتے ہیں کون سا کسی کو پتہ چلا ۔۔جبکہ طلاق کے بعد بیوی کا مرد کے ساتھ رہنا گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔۔اب کوی یہ مت سوچے کہ میں شادی کے خلاف ہوں یا لبڑل کی زبان بول رہی ہوں الحمدللہ میں حافظہ ہوں اور قرآن پاک سے اتنا تو سیکھا ہے کہ اسلام بہت آسان دین ہے لوگوں نے ان کی سوچوں نے اسے مشکل بنا دیا ہے ۔۔ہر بندہ اپنے اپنے مطلب کی حدیث نکال کر لے آتا ہے لیکن عورت کو قرآن میں اللہ نے جو حقوق دیے وہ کوی نہی پڑھتے جیسے وراثت میں حصہ ہی دیکھ لیں ۔۔آپ ضرور کریں بچیوں کی شادیاں لیکن کم از کم انھیں کچھ تعلیم بھی دلوائیں تاکہ انھیں شعور تو ہو کہ بیوی کا مقصد شوہر کی خدمت ہوتا اس شوہر کی جو عقلمند ہو اور بیوی کا خیال رکھتا ہو نہ کہ خاموشی سے اس شوہر کا ظلم سہنا جو مار پیٹ کرتا ہو سالہا سال بچے تو پیدا کرواتا ہو لیکن خود نشے پہ لگا ہو اور نچوں کے اخراجات بیوی بچوں کے حقوق کا پتہ تک نہ ہو ۔۔اور پھر انھی بیوی بچوں کو قتل کر دیتا ہو ۔۔یاد رکھیے ظلم پر خاموش رہنا بھی ظلم ہوتا ہے ۔

اب اصل بات پہ آتی ہوں لالچ ۔۔لوگ لالچ میں اپنی بیٹیوں کی شادیاں بیرون ملک سے آئے بوڑھوں سے کر دیتے ہیں ۔۔کہ بیٹا باہر چلا جاے گا یا لڑکی کے باپ کو وہ بوڑھا اچھا کاروبار کروا دے گا ۔۔لیکن اکثر اس کے برعکس ہوتا ہے ۔۔آج سے چھ سال پہلے ایک دوست تھی ۔اس وقت اس کی عمر اٹھارہ سال تھی تازہ تازہ بی۔اے ۔میں ایڈمشن ۔داخلہ ۔لیا تھا ۔کالج میں کسی ساتھ افیر تھا ۔نہ جانے کیا گناہ کر بیٹھی ۔۔کہ پتہ تب چلا جب باپ کے دوست کا رشتہ آگیا جو ۔عمر میں باپ سے بھی بڑا تھا ۔۔لڑکی اٹھارہ انیس سال کی اور وہ مرد آدمی ساٹھ سال کا ہوگا جو سعودی عرب رہتا تھا دو بچے تھے ۔۔آدمی کی بیٹی شادی شدہ تھی ۔اس لڑکی سے بھی عمر میں بڑی تھی ۔اور ایک لڑکا تھا وہ بھی جوان تھا ۔بیوی بھی زندہ تھی ۔۔۔۔جس لڑکی کی شادی ہونا تھا اس کے خاندان کے دیگر رشتہ داروں نے لڑکی کے والدین کو سمجھایا ۔۔کہ اگر لڑکی سے غلطی ہو بھی گئ ہے ۔تو تو کوی مناسب رشتہ ڈھونڈیں یہ ظلم ہے. لیکن والدین کو لالچ تھا ۔کہ اور بھی چھ بیٹیاں ہے ۔ایک بیٹا ہے ۔بیٹا باہر چلا جاے گا زندگی سنور جاے گی ۔۔ایک تو غریب کے خواب بھی کچھ زیادہ بڑے ہوتے ہیں ۔۔۔۔خیر شادی ہو گئ ۔۔کچھ عرصہ وہ لڑکی وہ آدمی کی فیملی کے ساتھ سعودی عرب رہی ۔پھر وہ فیملی پکا پکا پاکستان آگئ ۔۔۔آج اس کی شادی کو پانچ چھ سال ہو گے چار بچے ہے ۔۔اور اب اس کی عمر چوبیس سال ہو گی جو دکھنے میں کوی پچاس سال کی عورت کی طرح لگتی ہے ۔۔ سارا کام بھی کرتی ہے اور حکم ہے کہ بڑی بیگم جو اس کی ماں سے بھی بڑی ہو گی اس کے سامنے افف بھی نہیں کرنی ۔۔اپنی اچھی بھلی زندگی کو خود اپنے ہاتھوں برباد کر بیٹھی ۔۔ایسے ہی آنکھوں دیکھا ایک اور واقعہ ہے

ایک تینتیس سال کی عورت بیوہ ہو گئ ۔اس کی ساس جو اس کی پھوپھی بھی تھی اور دو بیٹے تھے عورت کے پھوپھی نے بیٹے چھین لیے بہو کو گھر سے نکال دیا ۔۔۔بھائ کے گھر آگئ ۔۔ٹینشن سے ذہنی مریض بن گئ۔علاج کروایا تھوڑا بہت وہ ٹھیک ہووی ۔تو اس کے نئے رشتے تلاش کرنے لگ گیا ۔دوسری طرف ایک بابا جی تھے جس کا بیٹا اسے اکیلا چھوڑ کر چلا گیا تھا ۔بابا جی کو بھی کسی سہارے کی تلاش تھی کہ سب کام خود کرتا تھا ۔۔خیر بابا کی بیٹی نے خود ہی بابا کا وہ بیوہ سے رشتہ کر دیا ۔۔۔اس عورت کا بھائ بھی لالچی تھا کہ بابا جی ہے بزرگ کل مر جاے گا ساری جائیداد ہماری ۔۔لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔۔اس بابا جی سے وہ عورت کی ہووی دو بیٹیاں ۔۔بابا تو پھس گیا ایک تو ویسے خود بیمار دوسرا اوپر سے خرچہ کے لیے الگ لائن لگ گئ ۔وہ عورت کے بھائ کی بھی امیدوں پر پانی پھر گیا ۔۔پر بابا جی ایسے پھسے کہ وہ عورت پھر سے ذہنی مریض بن گئ ۔لوگوں نے بابا جی کو ڈرایا کہ عورت ہے ٹینشن لیتی ہو گی کہ میرے بام کچھ بھی نہیں کل تمھیں کچھ ہو گیا تو جائیداد میں باقی اولاد کا حصہ بھی آجاے گا میری بچیوں کا کیا ہوگا ۔۔

بابا جی نے اپنی ساری جمع پونجی جائیداد سب وہ عورت کے نام کر دی ۔۔۔اپنی طرف سے حقوق دے کر سرخرو ہو گیا۔۔لیکن اب کیا ہوا وہ عورت اپنے بیٹوں سے ملنے لگ گئ ۔اب بابا جی اس ٹینشن میں بیمار پڑے ہووے کہ کہیں یہ سب کچھ بیٹوں کے نام نہ لگوا دے ۔اس سارے لکھنے کا مقصد یہ ہے ۔۔کہ لالچ نے ہمیں کتنا اندھا کر دیا ہے ۔۔لالچ میں ایسے لوگ اپنی دس دس سال کی بچیاں بھی خود وڈیروں کے حوالے کر دیتے ہیں۔۔غربت تو بدنام ہے ۔۔کبھی بھوک سے کوی مرا ہے ۔۔کہتے ہیں غربت کی وجہ سے فلاں نے ایسے کیا ویسا کیا ۔۔ارے رزق انسان کے پیچھے موت کی طرح بھاگتا ہے مگر شرط ہے انسان کوشش تو کرے صدق دل سے صاف نیت سے ۔۔پر نہیں انسان چاہتا ہے راتوں رات کوی خزانہ ہاتھ لگ جاے بس لگ جاے کسی بھی طرح پھر حلال حرام کی پہچان کہاں رہتی ہے ۔۔غربت کو روتے ہو تم ۔۔میرے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور صحابہ علیی اسلام سے زیادہ غریب ڈھونڈ کر دکھا دو آج ۔میرے ملک کا فقیر بھی آج پیاز سے روٹی نہیں کھاتا ہوگا ۔۔جو ان عظیم ہستیوں نے کھائ کھجور کا آدھا ٹکرا کھا کر بھی روزے رکھے انھوں نے ۔ نااعوذباللہ نہ غربت کے ڈر سے حرام موت لی کسی نے نہ رب سے گلے شکوے کر کہ اپنا ایمان کمزور کیا ۔۔۔اب یہ نہ کہنا کہاں وہ کہاں ہم ۔۔۔یہاں بات غربت اور انسان کی ہے.اس وقت کیا یہ سب سہولتیں تھی ۔۔۔بالکل نہیں ۔۔انھوں نے تو جنگیں بھی بھوکے پیاسے لڑی ۔۔۔۔مجھے دکھا دو کسی نبی کسی صحابہ نے کسی ایک نے تاریخ میں یا تاریخ کی کسی کتاب میں کسی نے غربت کا رونا رویا ہو ۔۔

آخر میں اتنا ہی کہوں گی ۔جناب ۔۔غربت بری نہیں نہ غریب برا ہے ۔۔بری تو وہ خواہشات کی لگام ہے جو کھلی چھوڑی ہووی ہے ۔۔۔خدارہ اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو ۔۔۔صبر اور برداشت سے جینا سیکھیے۔۔۔ویسے تو ہم کہتے ہیں کہ ہمیں فخر ہے کہ ہم مسلمان ہے صرف مسلمان تو نہ بنیے ۔۔محمد کی امت بھی تو بنے ۔۔وہ امت جسے لوگ دیکھ کر سوچنے پرجبور ہو جائیں ۔۔کہ یہ یہ امت ایسی ہے تو ان کے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیسے ہوں گے ۔۔شاید کہ اتر جاے تیرے دل میں میری بات ۔۔جزاک اللہ ۔

۔

<