قلعہ دراوڑ اور محکمہ سیاحت کی عدم دلچسپی . تحریر : جام محمد ماجد
قلعہ دراوڑ بہاول پور سے 48 کلو میٹر دور پاکستان کے قدیم اور بڑے قلعوں میں سے ایک ہے۔ اس قلعہ کی بدقسمتی کہیں کے جب بھی آثار قدیمہ اور لوک ورثہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو موھنجودوڑواور ھڑپہ کی تعمیرات کے علاوہ لوگوں کے ذہن میں قلع روہتاس کی بات ہوتی لیکن بھولے بسرے ہی کسی کو قلعہ دراوڑ کی یاد آتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کے محکمہ سیاحت اور آثار قدیمہ والوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے سابقہ ریاست بہاول پور کا عظیم الشان قلعہ جو کے سرائیکی علاقوں کی پہچان ہے رفتہ رفتہ بد حالی کا شکار ہو کے لوگوں کی یادوں سے محو ہوتا جا رہا ہے۔
جب کہ قلعہ دراوڑ ایک بہت ہی اہمیت کا حامل سیاحتی مقام ہے جسے حکومت پنجاب اور اس کے متعلقہ محکموں کی دلچسپی سے بہت ہی اعلی سیاحتی مقام بنا کے بہاول پور جنوبی پنجاب اور پاکستان کی خوبصورتی کو دنیا میں دیکھا کے قیمتی زر مبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔
بہاول پور کے نوابوں اور ان کے خاندان کی قبریں اس قلعہ میں واقع ہیں اور ایک عرصے تک بہاول پور کا نواب خاندان اس قلعہ میں رہائش پذیر رہا۔
قلعہ دراوڑ جس لاپرواہی اور عدم دلچسپی کا شکار ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کے اس قلعہ میں سیاحوں کے لئے نہ تو کوئی پینے کا صاف پانی ہے اور نہ ہی قلعہ کی خبر گیری رکھنے والا ہے نہ ہی کوئی محافظ۔
نواب مبارک خان اور نواب صادق کے دور تک قلعہ کی صفائی اور دیکھ بھال ہوتی رہی لیکن ان کے بعد آنے والوں نے اس میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی اور یہ عالیشان اور عظیم قلعہ لاپرواہی کا شکار ہو کر اپنی اہمیت کھو دیا۔
اگر ماضی کے اس شاندار اور تاریخی قلعہ کے تحفظ اور مرمت کے لئے اقدامات نہ اٹھائے گئے جلد ہی یہ عظیم قلعہ کھنڈر میں تبدیل ہو جائے گا۔
اب جب کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے اور پنجاب حکومت بہت سے تاریخی مقامات کی بحالی میں دلچسپی لے رہی ہے تو جنوبی پنجاب اور سرائیکی وسیب کے لوگ حکومت پاکستان اور پنجاب حکومت سے یہ امید کرتے ہیں کے اس عظیم اور تاریخی قلعہ دراوڑ کی بحالی اور خوبصورتی کے لئے ہر ممکن ضروری اقدامات اٹھائیں تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کو ریاست بہاول پور کی پاکستان کے لئے خدمات اور قلعہ دراوڑ کی تاریخ کا علم ہو۔
پاکستان ہمیشہ پائندہ باد.
کالم نگار سیاسی اور سماجی موضوعات پر لکھتے ہیں.
@Majidjampti