مکہ کا ایک جاہ و حشمت کا مالک ,شیریں کلام, شرم وحیا کا پیکر اور مالدار نوجوان تھا. نہ اس نے کبھی گیت گایا تھا نہ کبھی اس کی تمنا کی تھی, ایک دن اپنے دوست یار صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے ملے.آپ نے دین کی دعوت پیش کی فوری لبیک کہا اور سابقین اولین کی فہرست میں داخل ہوگئے. یہ تھے تیسرے خلیفہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ, اسلام قبول کرتے ہیں اللہ نے بڑے بڑے انعامات سے نوازنا شروع کردیا. میرے نبی پیارے حبیبﷺ داماد بنا لیا. اپنی لاڈلی رقیہ کو سیدنا عثمان کے عقد میں سونپ دیا. اور نبیﷺ بھی کیسے سسر ثابت ہوتے ہیں, ایک دن اپنی بیٹی کو ملنے بیٹی کی طرف گئے کیا دیکھتے ہیں بیٹی اپنے شوہر سیدنا عثمان رضی اللہ کا سر دھلا رہی ہے تو آپ سے یہ نظر دیکھ کر رہا نا گیا اور بیٹی سے فرمانے لگے بیٹی ابو عبداللہ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو,یقینا وہ میرے صحابی ہیں,اخلاق میں مجھ سے سب سے زیادہ مشابہ ہیں. سیدہ رقیہ جب اس دنیا سے رخصت ہوگئیں تو آپ نے اپنی دوسری بیٹی سیدہ ام کلثوم بھی عثمان رضی اللہ کے عقد میں دے دی. آپ کو اس نسبت سے ذوالنورین کہا جانے لگا. میرے حبیب نے فرمایا کہ میری سو بیٹیاں بھی ہوتیں تو یکے بعد دیگرے عثمان رضی اللہ کے نکاح میں دیتا رہتا.
ہجرت کا وقت آیا تو آقا علیہ السلام کے حکم پر اپنی زوجہ محترمہ کو ساتھ لے کر حبشہ کی طرف ہجرت کرلی اور اللہ نے قرآن اتار دیا فرمایا وَالَّـذِيْنَ هَاجَرُوْا فِى اللّـٰهِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُـبَوِّئَنَّـهُـمْ فِى الـدُّنْيَا حَسَنَةً ۖ وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَـرُ ۚ لَوْ كَانُـوْا يَعْلَمُوْنَ (41)اور جنہوں نے اللہ کے واسطے گھر چھوڑا اس کے بعد جبکہ ان پر ظلم کیا گیا تھا تو البتہ ہم انہیں دنیا میں اچھی جگہ دیں گے، اور آخرت کا ثواب تو بہت ہی بڑا ہے، کاش یہ لوگ سمجھ جاتے.
حضرت عثمان رضی اللہ شرم و حیا کے پیکر تھے. امام مسلمؒ اور امام بخاری ؒ نے ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہمارے پاس آتے تو حضور اکرمﷺ اپنا لباس درست فرمالیتے اور فرماتے تھے کہ میں اس (عثمان غنی) سے کس طرح حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں .
بیعت رضوان کا موقع آیا. نبی ﷺ نے پیارے صحابی کو سفیر بنا کر مکہ بھیج دیا. دوسری طرف خبر مشہور ہوگئی کہ سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ شہید کر دیئے گئے.نبی ﷺ نے فرمایا کہ کون ہے جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے کیلئے میرے ہاتھ پر بیعت کریگا، اس وقت تقریباً چودہ سو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خون کا بدلہ لینے کیلئے حضور اکرمﷺ کے ہاتھ مبارک پر ’’موت کی بیعت‘‘ کی اس موقعہ پر نبیﷺ نے اپنا ایک ہاتھ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دیتے ہوئے دوسرے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا کہ یہ ’’بیعت‘‘ عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے ہے اس بیعت کا نام بیعت رضوان اور ’’بیعت شجرہ‘‘ ہے۔ یہاں بھی میرے رب ان نفوس قدسیہ کا تذکرہ قرآن میں کردیا جنہوں نے اس بیعت میں حصہ لیا. تبوک کے باری آئی نبی ﷺ موت جہاد کے لیے فنڈ کا اعلان کردیا کہ کون خوش نصیب ہے جو جہاد کے راستے میں اپنا مال پیش کرے گا. اس موقع پر سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار اونٹ ، ستر گھوڑے اور ایک ہزار اشرفیاں جنگ تبوک کیلئے اللہ کے راستہ میں دیں حضور اقدس ؐ منبر مبارک سے نیچے تشریف لائے اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی سخاوت سے اس قدر خوش تھے کہ آپ ﷺ اپنے دست مبارک سے اشرفیوں کو الٹ پلٹ کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ’’ماضّر عثمان ما عمل بعد ہذا الیوم‘‘ آج کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ کا کوئی کام اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا.
پیارے حبیبﷺ اپنے اس عظیم صحابی کے لئے بہت دعائیں فرمایا کرتے تھے. راتوں کو جاگ دعا میں فرمایا کرتے تھے ! اے اللہ میں عثمان رضی اللہ عنہ سے راضی ہوں تو بھی راضی ہو جا۔کبھی اپنے صحابی سے فرماتے اے عثمان اللہ تعالیٰ نے تیرے تمام گناہ معاف کر دیئے ہیں جو تجھ سے ہوچکے یا قیامت تک ہونگے۔
نبی ﷺ اس دنیا سے چلے گئے, ابو بکر رضی اللہ کا دور آیا وہ بھی چلے گئے پھر عمر فاروق رضی اللہ کا دور آیا آپ کو شہید کردیا گیا. مجلس شوریٰ نے نام پیش کئے سیدنا عثمان کے نام قرعہ نکل آیا شرم و حیا کا پیکر میرے نبی ﷺ کا داماد آج خلافت منصبی پر فائز ہوچکا تھا. بہت سی فتوحات کی, اسلامی بیڑا پہلا ترتیب دیا, بہت سی اصلاحات کیں. آخری ایام تھے ظالم یہودی النسل عبداللہ بن سبا آپ کے خلاف متحرک ہوگیا. آپ کی کردار کشی کی. آپ کے خلاف صحابہ کو بھڑکایا.ذوالحجہ کے مہینہ میں اکثر صحابہ کرام حج کی ادائیگی کیلئے مکہ شریف چلے گئے تھے۔ سازشیوں کو موقع مل گیا اور آپؓ کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔ کئی دنوں تک آپ رضی اللہ عنہ اور آپ رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ کو بھوکا پیاسا رکھا گیا۔ ساتھیوں نے مقابلے کی اجازت مانگی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اپنے نبی کے شہر کو خون سے رنگین نہیں کرنا چاہتا.میرے نبی ﷺ کی بھی اپنے صحابی سے خواب میں ملاقات ہوئی فرمایا «يا عثمان، أفطر عندنا»
’’عثمان! افطاری ہمارے ساتھ کرنا‘‘..
12 ذوالحجہ کے دن میرے حبیب کے پیارے صحابی سیدنا عثمان کو خوارج نے گھر میں گھس کر حالت روزہ میں عین اس وقت شہید کردیا جب آپ قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے تھے. باتیں تو بہت ہیں لکھنے بیٹھیں تو قلم ہی رک نا پائے .اختصار کے ساتھ اپنے قلم کا حق ادا کرنا ضروری سمجھتا تھا. اللہ ہمیں جنتوں میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے ملوا دے آمین

جن کی حیا فرشتے بھی کرتے تھے…تحریر:خنیس الرحمٰن
Shares: