ھمارے علاقے مطلب کے پی بنوں میں زیادہ تر بجلی نہیں ہوتی جتنی ہوتی ہے ان سے گھر کے ضروریات بامشکل پوری ہوتی ہے جیسے پانی وغیرہ جس وقت بجلی ہوتی تو ولٹیج اتنا کم ہوتا ہے کہ کوئی بھی کام نارمل بجلی سے نہیں ہوتا مجبور بڑا والا سٹیبلیزر لگانا پڑتا ہے۔
کنڈہ سسٹم اور زیادہ جرمانے کی وجہ سے واپڈہ والوں نے لوگوں کے میٹر تو ضبط کرلئے لیکن دوبارہ لگائے نہیں جس کی وجہ سے لوگوں نے چوری کی بجلی استمعال شروع کردی ہے۔جسکا نقصان خکومت کو ہورہا ہے. 100 میں 10 لوگ بجلی کا بل ادا کرتے ہیں۔
باقیوں سے یہاں کے واپڈا والے 500 روپے نقد گھر کا لیتے ہیں جہاں تک میں نے سننا ہے بل یا رسید کے بغیر پیسوں کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا۔ یہ پیسے کہا جاتے اللہ بہتر جانتا ہے۔ اوپر سے امیر، غریب کو ایک ہی پلڑے میں رکھ دیتے ہیں۔ جہاں پر غریب کے گھر میں بمشکل ایک پنکھا اور بالب ہوتا ہے تو دوسری طرف امیر کے گھر میں اےسی ،فریج اور ہائی ولٹیج بالب لاگے ہوئے ہوتے ہیں۔
ٹرانسفارمر ٹھیک کرنا واپڈا والوں کا کام ہے لیکن یہ کام بھی ھمارے ہاں علاقے والے خود کرتے ہیں اپس میں پیسے جمع کرکے۔
اسکا خال ہوسکتا ہے اگر واپڈا والے اخساس سروے کا ڈیٹا لیکر اسی کے مطابق لوگوں پہ بوجھ ڈالے۔ میں نے بہت عرصے اپنے علاقے میں میٹر ریڈر نہیں دیکھا۔ مسجد کے بل میں بھی پی ٹی وی کا بل اتا ہے۔ یہی سے ھماری زوال شروع ہوتا ہے۔
اگرخکومت وقت نے اس طرف توجہ دی اور اسکو ٹھیک کرے تو خکومت اور عوام کے بہت سے مسلے ٹھیک ہوجایئنگے ایک تو پیسہ خکومت کو ملنا شروع ہونگے اور دوسری طرف عوام کو کچھ خد تک ریلیف بھی مل جائے گا۔ پاکستان کے ہر مخکمہ میں اصلاحات ضروری ہے لیکن شروعات وپڈا سے کرے ۔
@Moneebk6759367