دنیا میں آج تک کسی فرد گروہ خاندان یا نظریات کو نقصان پہنچا تو اس کے اندر سے ہی پہنچا. اسی تناظر میں دیکھا جائے تو موجودہ حالات میں ہمارے اسلام کو بھی بے حد خطرات لاحق ہیں. چاہے وہ مسلمانوں کا اسلام پر عمل نہ کرنا ہو یا غیر مسلموں کی اسلام کے خلاف سازشیں ہو سب ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں ان حالات میں جس پر سب سے زیادہ ذمہ داری آتی ہے وہ ہمارے مذہبی اسکالر ہیں.لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری کو بخوبی نہ سمجھا.

میں ایک عام پاکستانی اور مسلمان ہوں.میری اخلاقی تربیت میری معاشرتی تربیت کی جہاں ذمہ داری میرے والدین پر عائد ہوتی ہے وہیں یہ ذمہ داری ہمارے مذہبی علماء پر بھی عائد ہوتی ہے.ہمارے علماء کا ہمارے کردار کی تعمیر میں بے حد عمل دخل ہوتا ہے
لیکن افسوس کے ساتھ ہمارے عالم آج بھی موسیقی حرام, اٹھ اور بیس تراویح, نماز جنازہ آہستہ پڑھنی چاہیے یا اونچی, تین طلاق تین ہیں یا ایک,کیمرہ اور تصویر کیوں ناجائز ہے,اور ایسی کئی چیزیں جن کا ہماری معاشرت سے کوئی لینا دینا نہیں کی گردان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جبکہ معاشرہ جہالت قتل کفر دھوکہ منشیات حق مارنا دشمنی بے حیائی اور منافقت میں ڈوب رہا ہے.یہاں میں واضح کرتا چلوں کہ میں ہرگز اس حق میں نہیں ہوں کہ ان کے بارے میں بات نہ کی جائے ان کے بارے میں بھی بات کی جائے لیکن اتنی بات کی ہے جتنی اس کی ضرورت ہے.نہ کہ ہماری ساری توانائی صرف اسی پر صرف ہو جائے.

میرے نزدیک معاشرے میں ایک رہبر و رہنما اور لیڈر کی ذمہ داری بھی علماء پر عائد ہوتی ہے.ذرا سوچئے ان پچہتر سالوں میں ہم نے پاکستان کو کیا دیا؟ ایک ہندو بھی سپریم کورٹ کا جج ریٹائر ہوا لیکن ایک مدرسے کا طالب علم کہاں تک پہنچا ؟اس سسٹم کی ہم نے کتنی خدمت کی؟

اگر علماء صحیح معنوں میں اس ملک اور قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو نے آگے آنا ہوگا قدم بڑھانے ہوں گے.میں سب علماء سے درخواست کرتا ہوں کہ عورت کی حرمت,بہنوں کا حق, بیوی کے حقوق ,مسلمان کے مسلمان کے ساتھ تعلقات, اسلامی معاشرے میں جان کی قیمت , برداشت, صبر , محبت اور ہم آہنگی جیسے موضوعات پر بات کی جائے.اسی میں اصلاح کا رازمضمر ہے

@QasimZahee

Shares: