اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی زندگی بہت مشکل ہے تو آپ کے ٹو جتنی غلط فہمی کا شکارہیں۔ کبھی ان بیچاروں سے حال احوال پوچھیں جو ریسرچ کے رولر کوسٹرسے گزرکرآئے ہوں۔ آپ کو یقیناً کافی اشتیاق ہوگا کہ یہ سفرکیسا ہوتا ہے۔ تو کچھ سیر ہم آپ کو اس گہرے سمندر، صحرائے بنجر اورخطرناک جنگل کی کراتے ہیں۔
اس سفر کا آغاز پڑھائی لگاتار اور مسلسل پڑھائی سے ہوتا ہے۔ یہ عمل آپ کو تین چار دن تک کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ لیپ ٹاپ کی روشنی آنکھوں میں چبھنے لگے۔ اس بےشمار پڑھائی کے بعد آپ کا ٹاپک فائنل ہوجائے تو وہاں سے آپ کی خواری کی نہ رکنے والی اننگز کو آغاز ہوجاتا ہے۔
بیس بیس اور کبھی اس سے زائذ صفحات کے آرٹیکلز پڑھ کر اس میں سے بس ایک لائن اٹھانی ہوسوچ سکتے ہیں کتنی اذیت ہوتی ہے؟ دنیا جہاں میں اگرکسی نے ریسرچ کے نام پرلطیفہ بھی لکھا ہو، اس تک پڑھنا لازم و ملزوم ہوتا ہے کہ کہیں اسکا لطیفہ ہم دوبارہ سے نہ لکھ دیں۔ اسکے بعد جب دن رات جاگ کر لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھ کر آپ کی آنکھیں دکھنے لگیں، آپ کی کمر آپ کو احساس دلائے کہ آپ بچپن سے سیدھے بڑھاپے اور وہ بھی شدید علیل بڑھاپے میں قدم رکھ چکے ہیں۔ تب آپ کے دل میں بس ایک دعا ہوتی ہے کہ سپروائزر آپ کے بھاری بھرکم الفاط اور لکھنے کے انداز سے متاثر ہو جائیں۔
لیکن جب آپ امیدوں کے پُلوں پر چل کر سپروائزر کے کمرے میں جائیں اور وہ بے نیازی سے پڑھ کر تیکھے چتنوں سے دیکھ کر یہ کہہ دیں کہ
"کہاں سے کاپی کیا ہے؟ ”
دل پرسیدھی، الٹی، تیز، زنگ آلود ہر طرح کی چھری پھرتی ہے۔ پُل ٹوٹ کر ڈھڑام سے گر جاتے ہیں اور پھر ہم لٹکے منہ کے ساتھ لٹکتے لٹکتے واپس آ جاتے ہیں۔ اور اگر کسی کو لگے کہ یہ مبالغہ آرائی ہے تو آپ ہم بیچاروں کی سوجی، کالے دائروں سے بھری آنکھیں دیکھ سکتے ہیں۔ جن میں بس غموں کے آنسو ہیں۔
اگلا مرحلہ پھر ڈیٹا کلیکشن کا آتا ہے۔ اور آپ ریسرچ سٹوڈنٹ سے ایک دم فریادی بن جاتے ہیں۔ موبائل میں جتنے نمبر موجود ہوتے ہیں، سب کو منتوں بھرا میسج کرنا پڑتا ہے کہ خدارا سوالنامہ حل کر دو۔ اور یہ سن کر لوگ سمجھتے ہیں جیسے انکی جائیداد میں سے حصہ مانگ لیا ہو۔ یا پھر انکا امتحان لیا جا رہا ہو۔ ساتھ سیکالوجی کا نام پڑھ کر انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ اب ہمارے دماغ کے خیالات کو جانچا جائے گا۔ ارے نہیں بھئی! بس چند سوالوں پر ٹِک لگانے سے آپکی شخصیت کا جائزہ نہیں لے سکتے ہم۔ اور اگر فرض کریں کہ لینے کی کوشش بھی کریں تو دو تین سو لوگوں کا لیں گے؟ نہیں ہم پاگل ہیں؟ ہاں، آپ سمجھتے ہیں تو الگ بات ہے، لیکن ہیں تو نہیں نا!
اور پاکستانی قوم ماشاء اللہ اتنی بےغرض ہے کہ آپ اگر کسی راہ چلتے شخص سے گردہ مانگ لیں تو وہ کبھی انکار نہ کرے۔ لیکن questionnaires کا سن کا یوں انکار بھاگ کر آتا ہے جیسے فِل کرنے پر جنگ چھڑ جاتی۔ پر خیر خدا کے چند ( دو اڑھائی سو) رحمدل بندے اور بندیاںسوالنامہ حل کرتے ہیں۔ کچھ آدھا چھوڑ دیتے ہیں، کچھ ایسے خوبصورت ڈیزائن بنا کر واپس کرتے ہیں جیسے آرٹ گیلری میں رکھنا ہو۔خیر اس مرحلے کو پار کرتے ہی آپ ایسے جزیرے پر قدم رکھتے ہیں جہاں کی بولی ” ون، ٹو، تھری، ون، نہیں!فور فور۔۔ ہوتی ہے۔ ” ہر جگہ سے یہی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ اس آئی لینڈ کا نام ڈیٹا انٹری ہوتا ہے۔ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھے، کھاتے ہوئے اور سوتے ہوئے بھی ” ون، ٹو، ون، ٹو ” چل رہا ہوتا ہے۔
آگے کے مرحلے اس سے بھی زیادہ تلخ ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی دل کرتا ہے لیپ ٹاپ کو آگ لگا دیں، ڈگری چھوڑ دیں۔ بار بار ڈاکومنٹ سرخ ہو کر لوٹ آتا ہے جیسے سپروائزر کے پاس چیکنگ بجائے پولیس انسپکٹر کے پاس تفسیش کے لیے گیا ہو۔ یہ سفر چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ آپ چلنے سے رینگنے اور پھر رینگنے سے خود کو گھسیٹنے پر آ جاتے ہیں۔ دماغ معافیاں مانگنے لگتا ہے، جسم دہائیاں دیتا ہے۔ زندگی واپس بلاتی ہے لیکن ہم دلدل ہم پھنس چکے ہوتے ہیں۔ گھر والے بھی کرایہ مانگنا شروع کر دیتے ہیں کہ بس کھانے اور سونے آنا ہے تو کرایہ دینا شروع کر دو۔ پھر جب viva کا دن آتا ہے۔ اس دن تو آپ حال نہ پوچھیں۔ گوگل اور کتابوں کے اندر سے سارا علم نچوڑ کر اپنے اندر منتقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور جب ہم تفتیشی کمرے میں داخل ہونے لگتے ہیں تو جو ہمارے ساتھ ہوتا ہے،آپ سن کر غمِ دانش بھول جائیں گے۔ ہم اپنے چیرمئین کو دیکھ کر معصومیت سے کہتے ہیں
” میرا یہ بھرم تھا، میرے پاس تم ہو۔ ”
اور وہ آگے سے کہہ دیں
” میں تم لوگوں کو نہیں جانتی! ”
مطلب کیسے؟ سر ہم وہی ہیں جو آپکی راہ میں بھٹکتے رہے ہیں۔ انہی گلیوں میں پھرے ہیں ہم! آپ کیسے بھول سکتی ہیں؟
لیکن یہ غم دل میں لیے ہم جب اندر جاتے ہیں تو علم کا سمندر ہمارے اندر ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے۔ ہم سینہ تان کر کھڑے ہوتے ہیں کہ مارو سوالات کے راکٹ لانچر ہم تیار ہیں۔ وہ سامنے بیٹھے ٹیچرز خوبصورت مسکراہٹ چہرے پر سجا کر بس یہ پوچھتے ہیں کہ آپ نے اس ریسرچ سے کیا سیکھا؟ وہاں تو پھر سقراط اور اقبال کے جانشینوں کی طرح جواب دینے پڑتے ہیں۔
لیکن جب گھر آ کر اس سوال پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ جو ہمیں خواری لگ رہی تھی، وہ تو ہماری تراش تھی۔ ہمیں جو رگڑا لگ رہا تھا، وہ تو ہمیں سنوارا جا رہا تھا۔ ہم نے اس ریسرچ سے صبر، محنت کے علاوہ ریسرچ کرنا اور ٹھیک انداز میں کرنا سیکھا۔ ہماری چھوٹی چھوٹی غلطیوں اور انکی اصلاح کی ہلکی ہلکی خراشوں نے ہمیں ہیرہ بنایا۔ چار ماہ میں جتنا غصہ آتا تھا، اب اتنا ہی فخر ہوتا ہے کہ ہمارے استاد ہمیں بیکار کوئلے سے چمکدار ہیرہ بنا دیا ہے۔ یہ سب ہمارے اپنے فائدے کے لیے تھا۔ سونے کو پگھلانے اور بہترین شکل میں ڈھالنے کے لیے تپش دینی پڑتی ہے۔ پر جو جلنے سے انکار کر دے، وہ عام دھات ہی رہتا ہے اور جو جلنے پر آمادہ ہو جائے، وہ کندن بن جانا ہے۔ ہم اپنے اساتذہ کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہمیں کندن بنایا۔ کامیابی کی سند پر یقیناً ہمارا نام ہو گا لیکن سند، ہمارے اساتذہ کے نام ہو گی۔
( وہ جو ہم نے بل گیٹس بننے کا سنہری موقع گنوایا ہے، وہ یقیناً ہمیں مستقبلِ قریب میں واپس ملنے والا ہے )