آج امت زبوحالی کا شکار ہے ۔نبی آخر الزمان ص جس
امت کو ایک تسبیح کے دانے میں پروگئے وہ ٹوٹ چکی ہے اور امت ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے ۔جہاں نظر اٹھاؤ تو مسلمان مشکل میں ہیں ،کہیں کفار کی درپردہ چال بازیاں ہیں تو کہیں کفار کھلم کھلا غاصب ہے ۔یہ جنگ تو ازل سے ابد تک جاری رہے گی بدی اور نیکی کی جنگ کفار اور مسلمان کی جنگ!
اللہ کے نبی نے تو ہمیں واضح بتادیا کہ امت تو ایک جسد واحد ہے کہ ایک عضو تکلیف میں ہو تو دوسرا
عضو بھی سکون نہیں لے پاتا ۔

حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا سب مسلمان ایک جسم واحد کی طرح ہیں۔ اگر اس کی آنکھ دُکھے تو اس کا سارا جسم دُکھ محسوس کرتا ہے اور اسی طرح اگر اس کے سر میں تکلیف ہو تو بھی سارا جسم تکلیف میں شریک ہوتا ہے۔ (صحیح مسلم)

مگر یہ امت کیسی امت ہے کہ جسکا ایک عضو تکلیف میں ہے اور باقی سب خاموش تماشائ ہیں، ہر ایک مصلحت کے تحت خاموش ہے، مسلمان مسلمان کی تکلیف نہیں سمجھتا آخر یہ کیسی بے حسی ہے جو اس امت پہ طاری کردی گئ ہے ۔

حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ ﷲ کے رسول صلی ﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے تعلق ایک مضبوط عمارت کا سا ہے اس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے۔ پھر آپؐ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھایا کہ مسلمانوں کو اس طرح باہم وابستہ اور پیوستہ ہونا چاہیے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

لیکن آج یہ امت ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے ،مسلمان اپنے مسلمان بھائ کا دشمن ہے، یہود و نصاری کو اپنا دوست سمجھتے ہیں
ایک طرف امت کا دھڑکتا دل! فلسطین انبیائے کرام کی سرزمین ،وہی سرزمین جو واقعہ معراج کی شاہد ہے لہو لہان ہے، غاصب مسلط ہیں، مگر باقی دنیا کے مسلمان پھر بھی مست ہیں اس دنیا کی زندگی میں کھوئے پڑے ہیں ۔جانتے نہیں کہ یہ بے حسی اس امت کو اپاہج کرسکتی ہے اور اپاہج بھلا کسی سے اپنا حق بھی لے پایا ہے کبھی؟
فلسطین سے نظر پھیر بھی لو توامت کا بازو کشمیرہے جہاں ،نہ جانے کتنے سالوں سے ظلم کا بازار گرم ہے کرفیو لگادیا جاتا ہے، ماؤں بیٹیوں کی عصمتیں تار تار کردی جاتی ہیں دن دھاڑے اس امت کے بیٹے چھین لیے جاتے ہیں، مگر ہم! ہم تو سکون سے ہیں تو ہمیں کیا غرض کہ فلسطین اور کشمیر کس کرب میں ہیں! ہمیں کیا غرض کہ ایغور کے مسلمانوں پہ کیا بیت رہی ہے! ہم تو بس اپنی زندگی میں مست ہیں فلسطین اور کشمیر کو منظر نامے سے ہٹا کر ہی دیکھ لیں تو مسلم ایٹمی قوت پاکستان ہے، جس سے ہر مسلم ملک کو امیدیں ہیں کہ کوئ محمد بن قاسم آئے گاکوئ عمر بن خطاب پیدا ہوگا مگر یہاں تو مراثی ہیں یا اداکار! جو اس زندگی کو فلم کی طرح جییے جارہے ہیں، طاقت ہوتے ہوئے بھی بے بس ہیں یہ کیسی بے بسی ہے جو ہمارے ہاتھ باندھے ہوئے ہے اور زبانیں خاموش ہیں!
مان لو پھر کہ ایٹمی قوت پاکستان سے زیادہ بہتر وہ لہو لہو سرزمین فلسطین ہے جہاں ظلم کے خلاف مزاحمت ہے جہاں سچ اور حق کی آواز کڑے وقت میں بھی باطل کے سر پر تازیانہ بن کر پڑتی ہے ۔جہاں کم از کم لب تو بولنے کیلیے آزاد ہیں ۔۔۔ہم تو آزادی کے نام پر غلام بنالیے گئے ہیں ذات پات رنگ و نسل ماڈرنزم کے غلام! ہمیں آزادی کا بہلاوا دے کر قید کردیا گیا ہے ۔۔
ایک ایٹمی قوت کے ہوتے بھی امت کسمپرسی کاشکار ہے ۔۔ آخر اس زبوحالی کی وجہ کیا ہے؟
بس یہی کہ امت تفرقے میں بٹ گئ ہے، وہ رسی تو چھوٹ ہی گئ جس میں اس امت کی کامیابی کی ضمانت پوشیدہ تھی،

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ

اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو (القرآن)

محمد مصطفی تو سکھا گئے کہ تفرقے میں نہ پڑنا ورنہ جھاگ کی طرح کی حیثیت میں رہ جاؤگے سمندر ہو کر بھی طوفان نہیں بن سکوگے .
مگر ہم تفرقے میں بٹ گئے، امت بکھر گئ آج مسلمان تو ہیں مگر انکا وہ دبدہ نہیں رہا، کوئ شیعہ ہے تو کوئ سنی ،کوئ وہابی تو کوئ اہل حدیث ہے ،
کہیں نسلی و علاقائ تعصب کی آگ ہے جس میں
اپنا ہی اپنے کو دھکیل رہا ہے، ہر ایک خود کو دوسرے سے افضل سمجھتا ہے اور اس جنگ میں اپنوں کا ہی خون کیے جاتے ہیں.،جانتے نہیں کہ چاہے شیعہ ہو یا سنی، وہابی ہو یا دیوبندی کفار کیلیے سب مسلمان ہیں سب انکے دشمن ہیں۔جو چیز آج ہمیں اپنانی تھی وہ کفار آزماتے ہیں اور ہم ماڈرنزم اور مغرب کے پیچھے بھاگتے ہوئے ذہنی غلام ہیں۔
۔کسی کو انگریزی بولتا دیکھ کر مرعوب ہوجانے والے یہاں ایک عالم سے زیادہ عزت ایک مراثی کو دی جاتی ہے جہاں پڑھ لکھ کر آگے بڑھنے والا تو بے روزگار ہے مگر رشوت خور مزے میں ہے، جہاں ایماندار کو پاگل کہا جاتا ہے اور بے ایمان کو بولڈ سمجھا جاتا ہے ۔۔۔بے حیائ کی مانگ ہے اور حیادار کیلیے زندگی مشکل، ایسی غلامی کی زندگی جی رہے ہیں ہم!

مگر یہ غلامی ہماری چنی ہوئ ہے ہم آزاد ہو کر بھی غلام ہیں تسلط آج بھی مغربی ذہنیت کو حاصل ہے! بٹی ہوئ امت آخر زوال کا شکار کیونکر نہ ہوگی ؟ ذرا سوچیے کہ آخر کب تک اس بے حسی کی چادر کو تھامے ہم خواب خرگوش کے مزے لیتے رہیں گے محض ایسی دنیا کیلیے جو فانی ہے!
آخر روز آخرت ہم اپنے ہادی ص سے نظریں کیسے ملا پائیں گے ہمیں تو وہ امتی بننا تھا کہ جس امت کیلیے وہ ہستی روز محشر بھی شفاعت کی طلبگار ہوگی کہ یا ربی میری امت یا اللہ مری امت! اور ہم اس قابل بھی نہ ہونگے؟ آخر تفرقے کی اور مغربی غلامی کی اس جنگ سے ہم کب باہر آئیں گے؟
ہمیں بے حسی کی اس چادر کو اتار پھینکنا ہوگا اور ایک امت بننا ہوگا جس پہ نبی آخر الزمان فخر کرسکیں
وگرنہ ہماری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں!

Twitter Handle:
@timazer_K

Shares: