عورت اور معاشرتی رویّے تحریر: سویرااشرف

0
86

مرد اور عورت اللہ تعالی کی پخلیق کردہ دو اصناف ہیں اور دونوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے ۔آج کے ماڈرن اورنام نہاد لبرل دور میں صنفی امتیاز کا لفظ تو زبانِ زدِ عام ہے جس کا مطلب کسی صنف کو اس کے حقوق سے محرومی یا عدم دستیابی کا لیا جاتا ہے، جو یقینا کہیں نہ کہیں دیکھنے میں بھی آجاتی ہے۔ انسانی تاریخ میں ناانصافی inequality. کی ٹرم بیسویں صدی سے باقاعدہ جانی جانے لگی تھی اور مرد اور خواتین کی برابری کی فضا باقاعدہ ماحول میں بدلنے لگی۔ اس اہمیت کو جانتے ہوئے لوگوں میں شعور بیدار ہوا کہ حقوقِ انسانی، خصوصاً عورتوں کے حقوق ، بھی کسی بلا کانام ہے۔ تحریک چلی تو چلتے چلتے ہر سُو پھیلنے لگی اور یوں ہم نے Gender Equality یا Gender Discriminationجیسے الفاظ سے نیا ناتا جوڑلیا۔پاکستان میں حالیہ برسوں میں صنفی مساوات کو فروغ دینے میں اہم پیش رفت ہوئی ہے آج کی پاکستانی خواتین اپنی پچھلی نسلوں کی نسبت فیصلہ سازی کے زیادہ اختیارات رکھتی ہیں۔ لیبر فورس ہو یا ریاست، خواتین کی نمائندگی ہرشعبۂ زندگی میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ جس کے مثبت نتائج اس طرح دیکھنے میں آتے ہیں کہ آج کی خواتین ہر محاذ پر مردوں کے شانہ بشانہ نظر آتی ہیں۔ ملکی ترقی اور استحکام ہو یا اُمورِ خانہ داری، صنفِ نازک کی اوّل صفوں میںموجودگی اِس بات کا اظہار ہے کہ خواتین کسی صورت مردوں سے کم نہیں۔

یہ تو ہوگئی مردوں اور عورتوں میں امتیاز کی بات لیکن ایک امتیاز ہماری سوسائٹی میں خواتین کا خواتین کے مابین بھی دیکھا جاتا ہے جس کوWorking Woman اور Housewife کے نام سے منسوب کردیاگیا ہے۔یہ تفریق معاشرے سے کہیں زیادہ ہمارے رویوں نے پیدا کی ہے لہٰذا ہم اس کا بوجھ معاشرے کے کندھوں پر نہیں ڈال سکتے۔ ایک مشرقی معاشرے میں، گھر میں رہ کر پورا دن گھر میں کام کرنے والی خاتون کو، 9 سے5 ملازمت کرنے والی خواتین سے، کم تر سمجھا جاتا ہے، یایہ کہا جائے کہ ملازمت کرنے والی گھر کی خاتون کو غیر ملازمہ گھر کی خواتین کی نسبت زیادہ عزت دی جاتی ہے لیکن یہ صورت حال ہر جگہ ایک سی نہیں ، ہم دیہی علاقوں کا رُخ کریں تو وہاں گھریلو خاتون کودی جانے والی ترجیح واضح دکھائی دیتی ہے۔ اسے عزت دی جاتی ہے جبکہ ایک عورت کے لئے باہر کے کام کرنا وہاں معیوب گردانا جاتا ہے۔یہ ہمارے معاشرے کے مختلف رویے ہیں جو ایک ہی صنف کے لئے مختلف نوعیت کا انداز رکھتے ہیں۔
اب یہ ہمارے ماحول پر منحصر ہے کہ ہماری سوچ کس زوایے سے سب پرکھتی ہے اور کیسے پروان چڑھے گی۔ ماحول مثبت ہوگا تو سوچ اورخیالات بھی مثبت سمت میں پروان چڑھیں گے اور اگر ماحول منفی ہوگا تو نتائج بھی منفی ہوں گے۔ اِن تمام باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر ہم ایک شوہر کی حیثیت سے دیکھیں تو وہ ہمیشہ ایک کام کرنے والی خاتون کو بہتر سمجھتا ہے کیونکہ ایک ورکنگ لیڈی معاشی طور پر کنبے میں حصہ ڈال سکتی ہے اور شوہر کا بوجھ بانٹ سکتی ہے لیکن ہر جگہ ایسا نہیں سمجھا جاتا اسلیے ساتھ میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو قدامت پسند سوچ رکھتے ہیں اور اپنی بیویوں کو کام کرنے، کی اجازت دینے میں عار محسوس کرتے ہیں ۔
ایک بچے کی حیثیت سے دیکھیں تو ایک غیر ملازمت والی ماں بہتر ہے کیونکہ وہ بچے کی بہتر تربیت کرتی ہے اور اس کو اپنا سارا وقت دیتی ہے جس کی اس کی اولاد کو زندگی میں سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔۔ لیکن دوسری طرف دیکھا جاۓ تو ایک ورکنگ لیڈی بھی اچھی ماں ثابت ہو سکتی ہے ۔ ہمارے پاس بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں ایک عورت نوکری کے ساتھ ساتھ بہترین ماں بھی ثابت ہوئی ہے، وہ عورت جو گھر اور نوکری کے فراٸض میں توازن رکھے اور ایک ساتھ باخوبی نبھائے تو وہ معاشرے کے لئے قابلِ تحسین بھی۔ بچے کی پرورش میں ماں کا کردار باپ سے زیادہ اہم ہوتا ہے اور اس لئے یہ ترجیح ہوتی ہے کہ ماں بچوں پر خصوصی توجہ اور وقت دے جس اور مزیدیہ کہ اپنے اپنے نقطۂ نظر کے مطابق بچے کی پرورش کرے۔
گھر سے باہر رہ کر مردوں کے معاشرے میں کام کرنا یقینا ایک بہت بہادر عمل ہے لیکن اسکا مطلب یہ ہر گز نہیں اپنی مائوں، بہنوں کو جو دن رات24/7گرمی کی حدت اور سردی کی شدت میں ہمارے اور گھروالوں کے لئے اپنے دل و جان سے کام کرتی ہیں۔ معاشرتی طور پر ہمارا رویہ ایسا ہے کہ ایک ورکنگ وومین کا کام پہاڑ توڑنے کے مترادف سمجھتے ہیں اور دوسری طرف جب کوئی گھریلو خاتون اپنی پریشانی کا تھوڑا سا اظہار کردے تو ہم اسے کسی خاطر میں نہیں لاتے۔
بس یہی فرق ہے ہماری سوچ کا۔۔۔۔ ہمارے رویوں کا۔۔۔ خواتین کسی بھی جگہ ہوں،کسی بھی رشتے،کسی بھی ذمہ داری کو نبھا رہی ہوں، گھریلو یا ورکنگ ،وہ قابلِ عزت ہے،قابلِ احترام ہے ۔ہمیں اپنے معاشرتی رویوں کو بدلنا ہوگا ہمیں یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ ایک گھریلو خاتون کسی طور پر بھی ورکنگ وومین سے کم نہیں ہے۔
ایک طرف دیکھا جاۓ تو ورکنگ لیڈی کو اپنے کام کی اجرت ملتی ہے جبکہ گھریلو عورت کو کام کرنے کے باوجود اکثر لعن طعن ہی ملتی ہے
ان حقائق کو مدِ نظر ہوئے اس بات کا فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کون کس سے بہتر ہے ۔
ایک عورت ماں بھی ہے، بیٹی بھی،بہن بھی اور بیوی بھی۔ زندگی کے ہر روپ میں عورت کو اللہ نے ایک خاص مقام عطا کیا ہے اور اس خاص مقام کی بدولت ہی خدا نے اس کے قدموں تلے جنت رکھی ہے ۔ غرض عورت کے وجود سے ہی کائنات کی رونق ہے اور خود عورت ہونا ایک فخر کی بات ہے۔۔۔ لیکن افسوس کا مقام وہاں آتا ہے جب ہم ورکنگ ویمن کو گھریلو خاتون کے مقابلے میں زیادہ عزت دیتے ہیں۔ یہ بات انتہائی قابلِ افسوس ہے کہ ہمارا زیادہ تر پڑھا لکھا طبقہ بھی اس طرح کی سوچ رکھتے ہوئے زمانۂ جاہلیت کی باتوں میں پھنسا ہوا ہے۔ اگر ایک مرد گھریلو اور ملازمت پیشہ خواتین کے لئے الگ الگ رائے قائم کرتا ہے تو اس کی یہ سوچ کسی حد تک قابلِ قبول ہو سکتی ہے لیکن ایک عورت ہو کر دوسری عورت کے لئے اس طرح کی سوچ رکھنا یقینا غیر مناسب ہے۔
اگر کام کرنے والی خواتین اپنے کیرٸیر کیساتھ ساتھ بچوں،شوہر کی دیکھ بھال کے لئے وقت نکالنے کی جدو جہد کرتی ہیں وہی ایک گھریلو خاتون کو اپنے لئے وقت نکالنے کیجدوجہد کرتی ہے ۔ گویا دونوں کو وقت اور حالات کے تناظر میں مختلف چیلنجز کا سامنا رہتا ہے ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ کوئی بھی بات یا فعل ایسا نہ ہو جس سے معاشرے کا کوئی بھی فرد حوصلہ شکنی کا شکار ہو یا اس میں احساسِ کمتری پیدا ہو کیونکہ زمانہ کتنی ہی ترقی کیوں نہ کرلے، تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت اور انسانی رویّوں کی دیکھ بھال ہر دَور کی ضرورت رہی ہے۔ اس لئے اس طرح کے امتیاز کو ذہنی اور معاشرتی طور پر کم کرنا چاہئے کیونکہ حوّا کی بیٹیوں کے دَم سے ہی اس بزمِ جہاں میں رونق ہے اور وہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے وابستہ ہوں، معاشرے کی فلاح اور پروان میں دونوں کا اپنااپنا کردار ہے اور دونوں ہی اپنی اپنی جگہ پرانتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔

@IamSawairaKhan1

Leave a reply