لاہور:افغان جنرل کی یتیم بیٹی:ہرات سےڈنمارک کی فٹ بالر تک، نادیہ ندیم کی ناقابلِ یقین داستان زندگی ،اطلاعات کے مطابق افغان جنرل کی اس یتیم بیٹی کی داستان زندگی ہرسال میڈیا کی زینت بنتی ہے ، لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بنتی اورپھربے بس بے سہارا بیٹیوں کےلیے ایک امید کی کرن بنتی ہے ،

حسب سابق اس سال بھی کچھ ایسی ہی داستانیں دنیا کواپنی طرف متوجہ کیئے ہوئے ہیں ،بڑے بڑے سخت دل بھی بھی اس یتیم بچی کےعظیم سفر سے متاثرہوئے بغیر نہ رہ سکے

نادیہ ندیم ایک فٹ بالر ہیں جو ڈنمارک کے لیے کھیلتی ہیں، لیکن وہ کوئی عام کھلاڑی نہیں ہیں۔ نادیہ ندیم کی زندگی جہاں ایک المیہ کہانی بیان کرتی ہے، وہیں کامیابی کی داستان بھی ہے، جو کئی لوگوں کو متاثر کرتی اور تحریک دیتی ہے۔
نادیہ کو آج اہم ترین فٹ بال کھلاڑیوں میں شمار کیا جاتا ہے، خاص طور پر جب سے انہوں نے اپنے کلب پیرس سان-جرمین کی طرف سے 2020-21ء سیزن کا فرنچ لیگ ٹائٹل جیتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی زندگی کے ابتدائی ایام اورسال بہت ہی دلوں کودکھی کردینے والے ہیں

اکتیس سالہ نادیہ جنہوں نے حال ہی میں مانچیسٹر سٹی سے پیرس سینٹ جرمین کی ٹیم میں شمولیت اختیار کی کہتی ہیں: ’میں خوش قسمت ہوں جہاں میں فٹبال کھیل سکتی ہوں اور اپنی پسند کا کام کر رہی ہوں۔‘

ان کی کہانی قابل ذکر ہے۔ وہ محض 10 سال کی تھیں جب ان کے والد کو طالبان نے قتل کر دیا تھا۔ ان کے خاندان نے افغانستان سے فرار ہوکر ڈنمارک میں پناہ لی۔

ہرات میں ان کے گھر سے یہ سفر براستہ پاکستان کافی طویل تھا۔ وہ انسانی سمگلروں کے ذریعے پہلے اٹلی پہنچیں۔ برطانیہ جہاں ان کے رشتہ دار ہیں جانا چاہتی تھیں لیکن ڈنمارک میں ہی رک گئیں۔
نادیہ نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہم 2000 میں ڈنمارک آئے جب میں10 یا 11 سال کی تھی اور ہم ایک کیمپ میں مقیم تھے۔ اس کیمپ کے ساتھ ہی زبردست فٹال کے میدان تھے۔
Father killed by Taliban in Afghanistan when she was 11, fled to Denmark. Scored 200 goals & represented the Danish national team 98 times. studying to be a surgeon. Speaks 11 languages, on the Forbes list of Powerful Women. show your daughter a role model, show her Nadia Nadim! pic.twitter.com/MBO6oXyR3B
— BaristaBarrister (@BaristaBarrist1) June 21, 2021
ہر روز میں اور کیمپ کے دیگر بچے سکول کے بعد اس میدان میں کھلاڑیوں کو پریکٹس کرتے دیکھتے تھے۔ ایک دن میں نے پوچھا کہ آیا میں بھی کھیل سکتی ہوں اور کوچ نے کہا ہاں کیوں نہیں۔‘

وہ 2 جنوری 1988ء کو ہرات، افغانستان میں پیدا ہوئی تھیں۔ صرف 11 سال کی تھیں کہ طالبان نے اُن کے والد کو قتل کر دیا جو افغان فوج میں ایک جنرل تھے۔

ان کی والدہ اپنی چاروں بیٹیوں کے ساتھ جعلی پاسپورٹس کے ذریعے افغانستان سے پاکستان پہنچیں اور یہیں سے اُن کے یورپ کے سفر کا آغاز ہوا۔
نادیہ بتاتی ہیں کہ "ہم دراصل لندن جانا چاہتے تھے، کیونکہ ہمارے چند رشتہ دار وہاں پہلے سے موجود تھے۔ لیکن انہی جعلی پاسپورٹس پر ہم پاکستان سے اٹلی پہنچ گئے۔
یہاں سے میں اور پورا خاندان ایک ٹرک میں سوار ہوا، یہ سمجھ کر کہ ہم لندن کی طرف جا رہے ہیں۔ چند دنوں کے جہاں ہمیں اتارا گیا، وہ ایک ویران جنگل تھا۔ کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ ہم ڈنمارک میں ہیں۔”
یوں ڈنمارک نادیہ اور اُن کے خاندان کا گھر بن گیا اور یہیں سے انہوں نے B52 آلبورگ کلب کے لیے کھیلنے کا آغاز کیا۔ 2009ء میں نادیہ ندیم نے الگارو کپ میں ڈنمارک کے لیے پہلا میچ کھیلا اور یوں بین الاقوامی کھلاڑی بن گئیں۔
انہیں بہترین فٹ بالرز میں سے ایک تسلیم کیا جاتا ہے کہ جنہوں نے قومی ٹیم کی کئی فتوحات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 2017ء کی یورپی چیمپئن شپ میں ایک شاندار گول اُن کے کیریئر کا ایک یادگار لمحہ ہے۔
اپنے ملک کے انتشار سے دور ان کے جوانی کے دن ڈنمارک میں پرامن تھے، اور انہیں کامکس، سکول اور خصوصاً کھیل پسند تھے۔
وہ بتاتی ہیں: ’میں ہر روز خوش ہوں اور شکر گزار ہوں۔ میں خوش قسمت ہوں جہاں میں فٹبال کھیل سکتی ہوں، وہ کھلاڑی بن سکتی ہوں جو میں بننا چاہتی ہوں اور لوگوں سے مل سکتی ہوں۔‘
ندیہ نادم جو ایک سرجن بننے کی تعلیم اب حاصل کر رہی ہیں کہتی ہیں کہ کھیل سماجی برابری کا عظیم ذریع ہے۔ ڈنمارک میں اپنے ابتدائی دنوں کو یاد کر کے وہ کہتی ہیں کہ مختلف علاقوں سے کئی بچے تھے۔ عرب، عراقی، بوسنیائی، صومالیہ کے اور کسی کو نہ اپنی اور نہ ہی انگریزی زبان آتی تھں۔ ’ایک زبان جو ہر کوئی بول سکتا تھا وہ تھی کھیل
یہی نہیں بلکہ نادیہ فٹ بال کی سخت تربیت اور مصروفیات سے اتنا وقت نکالنے میں بھی کامیاب ہو گئی ہیں ایک پلاسٹک سرجن بن سکیں۔ وہ آرہوس یونیورسٹی میں میڈیکل کی طالبہ ہیں اور فٹ بال سے ریٹائر ہونے کے بعد اس کی تکمیل کا ارادہ رکھتی ہیں۔
نادیہ کی غیر معمولی داستان ان کی سوانح حیات (autobiography) کی صورت میں پہلے سے موجود ہے اور حال ہی میں کافی مقبول بھی ہوئی ہے۔
ایک ٹوئٹر صارف نے چند روز پہلے ان کی زندگی کو مختصراً کچھ اس طرح بیان کیا "والد افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں قتل ہوئے جب ان کی عمر 11 سال تھی، وہ فرار ہو کر ڈنمارک پہنچیں۔ 200 گول اسکور کیے اور ڈنمارک کی قومی ٹیم کی 98 مرتبہ نمائندگی کی۔

ایک سرجن بننے کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ 11 زبانیں بولتی ہیں اور فوربس کی طاقتور ترین خواتین کی فہرست میں شامل ہیں۔ اپنی بیٹی کو رول ماڈل دکھائیں، اسے نادیہ ندیم سے متعارف کروائیں۔”
یہ ٹوئٹر کافی وائرل ہوا اور لاکھوں افراد نے اسے لائیک اور شیئر کیا ہے۔
I’m overwhelmed by all the kind messages. I wish I could reply them all. But thanks, I surely appreciate it, and it warms my heart ❤️
Please continue to spread love to one another, especially to those who maybe not deserves it, as they are the ones who needs it ❤️🦖 pic.twitter.com/3PaZBSTSjV
— Dr Nadia Nadim (@nadia_nadim) June 22, 2021
خود نادیہ نے اپنے پرستاروں کی جانب سے ایسے پیغامات ملنے پر انہیں سراہا اور ان کے لیے خصوصی ٹوئٹ بھی کیا۔

ویسے نادیہ جب فٹ بال نہیں کھیلتیں تو ان کی زیادہ تر مصروفیات اقوامِ متحدہ کے لیے سفارتی کام اور خدمتِ خلق کے منصوبوں پر ہوتی ہے۔

ان کا آخری منصوبہ اپنے کلب PSG اور دنیا بھر کے مہاجر کیمپوں میں اسپورٹس کلب بنانے میں مدد دینے والے ادارے KLABU کے درمیان ایک آف فیلڈ پروجیکٹ ہے۔








