وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے اندر جارحیت بڑھتی جا رہی ہے۔ہر آدمی عدم برداشت کا شکار نظر آتاہے۔دیگر شعبہ ہاۓ زندگی کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی گالی گلوچ کی بھرمار ہو چکی۔
یہ سب کچھ بہت افسوسناک ہے۔کیا ہم جنگل کی زندگی کی طرف واپس جا رہے ہیں؟
ہم ایک مہذب معاشرہ بننے کے بجاۓ پُر تشدد معاشرہ بننے کی طرف کیوں گامزن ہیں؟
ہم چند روپوں کی خاطر ایک دوسرے کی جان کیسے لے سکتے ہیں؟
کیا ہمارے مذہب کی یہی تعلیمات ہیں؟
بلکل نہیں۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے،جو ہمیں جیو اور جینے دو کی پالیسی پر گامزن رہنے کا حکم دیتا ہے۔ہمارے مذہب اسلام میں تو جانوروں حتی کہ درختوں کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔
اس مذہب عظیم میں ایک انسان کی جان لینے کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔
اگر مذہب یہ کہتا ہے تو ہمیں اسکی تعلیمات کو اختیار کرنے میں کونسا امر مانع ہے؟
ہمارے مذہب کو لوگ اچھا مذہب اُسی وقت تسلیم کریں گے،جب ہم اچھے مسلمان اور اچھے انسان بن کے اسکا عملی نمونہ پیش کریں گے۔
ان پر تشدد رویوں کی جو وجہ مجھے نظر آتی ہے،وہ معاشرے میں عدم مساوات اور انصاف کی عدم فراہمی ہے۔
عام آدمی کو جب ایک بااثر آدمی کے مقابلے میں انصاف نہیں ملتا تو لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا شروع کر دیتے ہیں۔
اسی طرح عام آدمی حقوق کی جگہ جگہ پامالی بھی اسی معاشرتی تفرقے اور بگاڑ کا باعث بن رہی ہے۔ایک عام آدمی کو چھوٹے سے چھوٹے کام کے لئے لائن میں لگنا پڑتا ہے،جبکہ با رسوخ افراد یہی کام گھر بیٹھے ایک فون کال پر کروا لیتے ہیں۔
ان تباہ کُن رویوں میں اضافے کا باعث ہمارے سیاستدان بھی ہیں،جنہیں آپ روزانہ دست و گریبان ہوتےاور گالم گلوچ کرتےدیکھ سکتے ہیں۔
ان لوگوں کے اس وطیرے کا نوٹس لینے کی بجاۓ پارٹی قیادت شاباشی دیتی ہے۔
لوگ اپنے ان نام نہاد راہنماوں کی پیروی میں وہی نا مناسب رویہ عام زندگی میں اختیار کر لیتے ہیں۔
ہمارے آپس کے لڑائ جھگڑوں کی ایک وجہ دوسرے کی بات کو اہمیت نہ دینا بھی ہوتا ہے۔ہم بس اپنی سُنانا چاہتے ہیں،کسی کی سننا نہیں چاہتے۔ضروری نہیں کہ ہر دفعہ ہم ہی درست ہوں یا حق پر ہوں۔
بعض دفعہ دوسرا بھی سچائ پر ہو سکتا ہے۔اگر ہم اپنی بات کہتے ہیں،تو دوسرے کی سننے کا حوصلہ بھی ہونا چاہیے۔
انصاف کی عدم مساوات کے ساتھ ساتھ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم بھی لوگوں کو زہنی مریض بنا رہی ہے،امیر ،امیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔غریب ،غریب ترین۔
یہ تفاوت اسی وقت دور ہو سکتی ہے،جب معاشرے سے کرپشن ختم ہو جاۓ۔ہر ایک کا بے رحم احتساب کیا جاۓ۔اسکا آغاز کھرب پتی افراد سے کرنا چاہیے نا کہ ایک سائیکل اور چھابڑی والے سے۔
ہر شہری کو مواقع ،برابری کی بنیاد پر ملنے چاہییں،چاہے وہ تعلیمی یا طبی سہولیات ہوں یا کاروبار کے مواقع۔
پرچی مافیا کا خاتمہ ہو۔
ہر ایک کا کڑا احتساب وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اگر ہم نے یہ سب نہ کیا تو یہی عدم برداشت کی لہر ایک طوفان کی شکل اختیار کر جاۓ گی اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے،
خدانخواستہ#
@lalbukhari