حسد تقدیر اور اللہ تعالیٰ کی تقسیم کے منافی سوچ ہے. حسد کے دو معنی ہیں. کسی انسان کی خوبصورتی، شکل و عقل، رزق وغیرہ جیسی نعمتوں اور کامیابیوں پر کڑھنا، جلنا اور غصہ کرنا. دوسرا معنی ہے کہ کسی انسان کی کامیابیوں اور نعمتوں کے زوال اور چھن جانے یا زائل ہونے کی خواہش کرنا. حسد دل کی بیماری ہے. حسد دل کے عوارض کا سبب بنتا ہے اور جب کسی کا دل تعصب، کینہ اور حسد کا شکار ہو جائے تو پھر دنیا اور آخرت دونوں برباد ہو جاتے ہیں.
اللہ تعالیٰ نے سورۃ فلق میں جن شرور سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی ہے ان میں حاسد کے حسد کا ذکر بھی ہے. اللہ تعالیٰ نے سورۃ فلق میں بڑے اور خطرناک شرور کا ذکر کیا ہے. اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ تمام مخلوق کے شر سے جو کسی شر یا نقصان کا سبب بن سکتی ہیں، اندھیرے کے شر سے، جادو کے شر سے اور حاسد کے حسد یا حسد کے شر سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے. یقیناً حاسد کا حسد یا حسد کا شر بہت مہلک بیماری ہے.

حسد کا مطلب نعمتوں پر اعتراض اور اختلاف کرنا ہے. حاسد کسی بندے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ نعمتوں پر اعتراض یا اختلاف نہیں کر رہا ہوتا دراصل وہ اللہ تعالیٰ کی تقسیم اور عطاء پر اعتراض کر رہا ہوتا ہے. اللہ تعالیٰ نے تقسیم کے فیصلے زمین و آسمان کی پیدائش سے 50 ہزار سال پہلے کئے. ایک مومن بندہ دنیا اور آخرت کی بہتری کے لئے رشک کر سکتا ہے. حسد اور رشک میں فرق ہے. حسد کا مطلب کہ فلاں کے پاس فلاں چیز کیوں ہے یا نہ ہو. رشک کا مطلب کہ اس کے پاس جو چیز ہے وہ میرے پاس بھی ہو. ایک مسلمان دوسرے انسان کی نعمتوں، کامیابیوں اور رزق کی فراوانی دیکھ کر رشک کر سکتا ہے، رشک کرنے میں کوئی حرج نہیں اور دینوی اور اخروی معاملات میں رشک کرنا بھی چاہئے.

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بہترین کلیہ بتایا ہے کہ شرعی معاملات میں اپنے اوپر والے بندے کو دیکھو جو آپ سے علم، عمل اور تقوے میں بہتر ہو تاکہ تمہارے اندر عمل اور پرہیزگاری کا پہلے سے زیادہ شوق پیدا ہو. دنیاوی معاملات میں اپنے سے نیچے اور زیادہ غریب آدمی کو دیکھو تاکہ تمہارے اندر مال اور دنیا کی حرص پیدا نہ ہو اور نہ ہی تم احساس کمتری کا شکار ہو. جب انسان دنیا داری میں اپنے سے نیچے والے بندے کو دیکھے گا تو حسد پیدا نہیں ہوگا اور جب عبادت اور عمل میں اپنے سے اوپر والے بندے کو دیکھے گا تو اس میں عمل اور نیکی کا حرص پیدا ہوگا.

امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہہ سے ملنے کے لئے ایک ساتھی صحابی کے ساتھ حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے. آپ امیرالمؤمنین کسی سرکاری کام میں مصروف تھے اور دربان کو کہا کہ وہ میرا انتظار کریں. اسی اثناء میں حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہہ بھی ملاقات کی غرض سے تشریف لے آئے. امیرالمؤمنین کو پتہ چلا تو آپ کام چھوڑ کر حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ کو ملنے چلے آئے. بعد میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہہ نے اپنے ساتھی صحابی سے گلہ کرتے ہوئے فرمایا کہ امیرالمؤمنین نے عدل نہیں کیا، ہمیں انتظار کروایا اور بلال کو اسی وقت ملنے چلے آئے. ساتھی صحابی رسولۖ نے ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہہ سے فرمایا کہ حسد مت کرو، ہم نے فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کیا اور بلال نے جس وقت اسلام قبول کیا اس وقت اسلام قبول کرنا بہت بڑا گناہ سمجھا جاتا تھا اور بلال نے بہت صعوبتیں برداشت کیں. اللہ تعالیٰ نے بلال کو دنیا اور آخرت میں ہم سے بہتر مقام عطا کیا ہے لہذا جلنا اور حسد کرنا درست نہیں. جب آخرت کے دن اللہ تعالیٰ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کو بڑی عزت و تکریم سے نوازیں گے تو اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کی تقسیم اور نوازش پر اعتراض کرے گا؟

اس دنیا میں رونما ہونے والے پہلے فتنے کی بنیاد بھی حسد اور غرور پر ہے. ابلیس کا خیال تھا کہ روئے زمین پر ایسی کوئی جگہ خالی نہیں جہاں میں نے سجدہ نہ کیا ہو، اب مجھے حکم دیا جا رہا ہے کہ مٹی کی پیداوار کو سجدہ کروں جو مجھ سے کمتر ہے. ابلیس مقام آدم کو دیکھ کر حسد میں مبتلا ہو کر اللہ تعالیٰ سے بغاوت کر گیا اور قیامت تک ملعون قرار پایا. شیطان نے اسی حسد کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے بھی نکلوایا.
اللہ تعالیٰ نے باقاعدہ تعلیم دی ہے کہ حاسد کے شر سے بچنے کے لئے پناہ طلب کرو. آخرت کے دن وہی لوگ جنت میں داخل ہونگے جو قلب سلیم لے کر آئیں گے. جن کے دل عوارض سے پاک ہوں گے مطلب ان کے دل کسی قسم کے حسد، تعصب اور بغض کی خباثت سے پاک ہوں گے.

@mian_ihsaan

Shares: