ٹریفک کی روانی دل کے مریضوں کی موت میں اضافے کا سبب بن رہی ہے تحریر: عقیل احمد راجپوت
کراچی شہر میں مریضوں کو اسپتال منتقل کرنے کے لئے پہلے تو کوئی سرکاری ایمبولینس سروس نہیں ہے کیا کمال کی بات ہے پورے پاکستان کو اورنج لائن میٹرو ٹرین میٹرو بس سروس کے لئے 68پرسنٹ ریونیو اکھٹا کرکے دینے والے کراچی شہر میں ایمبولینس سروس بھی خیراتی اداروں کے مرحون منت ہے میرا آج کا موضوع یہ نہیں وہ بیمار ہے جو کراچی میں گندے پانی اور گندگی کی وجہ سے آئے روز بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں مگر ان کو اسپتال منتقل کرنے کے لئے کوئی ایمرجنسی ٹریک ہی دستیاب نہیں پورے کراچی سے کسی اسپتال کی جانب جانے کے لئے جن سڑکوں کا انتخاب آپ کو کرنا ہوگا اس میں ٹریفک جام گھنٹوں کی بات ہے اب آپ کے مریضوں کی قسمت اچھی رہی تو وہ ٹریٹمنٹ ملنے تک اسپتال منتقل ہوجائے گا اور صحت مند زندگی کی جانب لوٹ آئے گا آپ بیتی بتا رہا ہوں مجھے دل کا دورا پڑا ایمرجنسی کی صورت میں مجھے گھر والوں نے رکشہ میں ڈال کر کارڈیو اسپتال واٹر پمپ لیجانے کی کوشش کی ابھی فور کے چورنگی پر ہی گھر والوں کے ہاتھ پاؤں ڈھیلے پڑ گئے کیونکہ وہاں سے گاڑی کو نکالنے کے لئے کم سے کم آدھا گھنٹہ درکار ہوتا ہے اللہ کا کرنا اور میرے زندگی کے دن ابھی باقی تھے سامنے چھیپا کے بوتھ سے ایک ایمبولینس میں ڈال کر گھر والوں نے آگے کا سفر جاری رکھنے کا ارادہ کیا بھلا ہو چھیپا ویلفیئر کے ڈرائیور کا جس نے منی کارڈیو پہنچایا مگر برائی سامنے سے دستک دے رہی تھی ڈاکٹر نے کہا فورا بڑے کارڈیو یعنی این آئی سی وی ڈی لیجائے یہاں انتظام نہیں ہے الٹے پاؤں واپس گھر والوں نے بڑے کارڈیو پہچانے کی ٹھانی اور پھر ایمبولینس سروس کے ذریعے مجھے کارڈیو پہنچایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے ایمرجنسی ٹریٹمنٹ کے بعد اینجیو گرافی اور اگر ضرورت ہوئی تو انجیو پلاسٹی کی تجویز دی اور آپریشن تھیٹر میں میری انجیو پلاسٹی کردی گئی اسنٹ دل کے اندر پیوست ہو گیا لیکن سب پریشانیوں اور گھٹن کے جو لمحے میں نے گزارے ہیں وہ روڈ پر ٹریفک میں پہنس کر اپنی زندگی کے لئے لڑنا ہے حکومت مریضوں کے لئے فاسٹ ٹریک ایمرجنسی روڈ کا پلان ترتیب دے جس سے بہت سی انسانی جانوں کو بچایا جاسکے