جیساکہ آپ نے اِس سلسلے کی پہلی قسط جو کہ جدید سمارٹ سسٹم موبائل فونز کے ہماری آج کی سوسائٹی اور زندگیوں پہ پڑنے والے برے اثرات کے بارے میں تھی، ضرور پڑھی ہوگی۔ تو چونکہ یہ اُسی سلسلے کی دوسری قسط ہے تو آئیے پھر اُسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہیں۔
~ ہماری خط و کتابت اور علمی و ادبی کتابوں کو پڑھنے والے ورثے کا ناپید ہو جانا۔
اِس سلسلے کی پہلی قسط میں آج کے دور کے اِن جدید سمارٹ سسٹم موبائل فونز کے آنے کے بعد ہماری زندگیوں پہ پڑنے والے جن برے اثرات کا ذکر کیا گیا تھا اُن کے ساتھ ساتھ یہ بھی انتہائی برا ہوا کہ جو ہمارا انتہائی قیمتی خط و کتابت کا ورثہ تھا جس کے زریعے ہم اپنے دوستوں، عزیزوں و رشتہ داروں اور وہ لوگ جنہیں کوئی پیغام یا خبر بھیجنا مقصود ہوتا، تو خط لکھا جاتا تھا جسے کبھی تار کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔
اور پھرعیدین کے موقع پہ تو بازاروں میں تو طرح طرح کے ڈیزائنوں والے عید کارڈز بھی ملا کرتے تھے جنہیں پھر ہم مختلف اشعار لکھ کر یا پھر چھوٹی سی تحریر لکھ کر مبارکبادوں کے ساتھ اسے ڈاک کے ذریعے بھیجنے کے لئے اپنے گلی، محلوں یا پھر کسی قریبی گاوں میں موجود لیٹر بکس میں ڈال کے آیا کرتے تھے۔
پھر اِس سارے خوشگوار اور شاندار عمل سے گزرنے کے بعد اُس بندے کا کام شروع ہوتا تھا، جس کا نام اور کام دونوں کو ہی ہم آج کے دور میں ناپید ہوتا بھی دیکھ رہے ہیں اور اُس کا نام ڈاکیا تھا۔ جو اُن خطوط یا تاروں، شادی کارڈوں اور عید کارڈوں کو لیٹر بکسوں سے وصول کرنے کے بعد اپنی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے مطلوبہ پتوں پہ اُن کے دوستوں، عزیزوں و رشتہ داروں تک پہنچاتا تھا (البتہ! دیہاتوں اور قصبوں میں زیادہ تر منگنیوں اور شادیوں وغیرہ کے موقع پہ شادی کارڈز دے کر اپنے خاندانی طور پہ رکھے ہوئے نائی/ حجام جسے مقامی اور پنجابی زبان میں سیپی بھی کہا جاتا ہے، اُسے بھی بھیج دیا جاتا ہے/تھا)۔
اور اب نہ تو وہ خطوط اورعید کارڈ ہی رہے ہیں اور نہ ہی وہ اُس سہانے دور میں سائیکلوں پہ گھومنے والے ڈاکیے، وہ سب کچھ تو جیسے دفن ہی ہو کے رہ گیا ہو۔ کیونکہ اب اِن جدید سمارٹ سسٹم موبائل فونز کے ہر طرف عام ہو جانے کے بعد عیدین اور تہواروں پہ بس اِنہی موبائلوں کے زریعے صرف یا تو ایک میسج بھیج دیا جاتا ہے یا پھر زیادہ سے زیادہ یہ کہ فون کال کر کے دو چار منٹ کے لیے پیغام دینے کی غرض سے تھوڑی بہت بات کر لی جاتی ہے۔
اب تھوڑا آگے چلیے تو آپ کو بتلاوں کہ کبھی جو ہمارا کتابیں پڑھنے کا دور ہوا کرتا تھا۔ (جس کا ہم میں سے کچھ تو ہو سکتا ہے اب بھی شوق رکھتے ہوں مگر زیادہ تر تو بُھلا ہی چکے ہیں) اور جس میں بہت سارے اچھے اچھے مصنفوں کی علمی، ادبی، اسلامی، تاریخی، ہنسی و مزاح اور کئی دوسرے موضوعات پہ مبنی لکھی ہوئی کتابوں کو پڑھنے کا ایک بڑا ہی اچھا زمانہ ہوا کرتا تھا۔
کہ جب وہ سکول، کالج اور یونیورسٹی کی لائبریریوں یا پھر بازاروں میں موجود کتابوں کی دوکانوں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کے کتابوں کو گھر لے کے آنا اور پھر کئی کئی دن تک اُن کو پڑھنے میں ہی گزار دیے جاتے تھے۔ اور پھر کتابوں کو پڑھنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جو علم و حکمت کی باتیں کتابوں کو پڑھنے سے حاصل ہوتی ہیں، ایک تو وہ دل و دماغ پہ نقش ہو جاتی ہیں اور دوسرا یہ کہ وہ باتیں حِفظ کی طرح اپنے قاری کے دماغ میں گھر کر لیتی ہیں اور اُن کا بھولنا پھر تقریباً ناممکن سا ہو جاتا ہے۔
اور پھر اِن کتابوں کو پڑھنے کے بعد اپنے کتابوں کا شوق رکھنے والے دوستوں سے بھی کئی موضوعات پہ انتہائی اچھی علمی، ادبی اسلامی اور تاریخی گفتگو بھی اپنے آپ میں ایک شاندار قسم کی بیٹھک بن جایا کرتی تھی۔ اور یہی علمی و ادبی بیٹھک اُن سب کے علم میں مزید اضافہ کا باعث بھی بنتی تھی۔ الغرض یہ سارے کا سارا عمل ایک انتہائی خوشگوار تجربہ ہوا کرتا تھا۔
مگر! مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اِن جدید سمارٹ سسٹم موبائل فونز کے آ جانے کے بعد اب نہ تو وہ گفتگو ہی رہی ہے، نہ ہی ویسی بیٹھکیں رہیں ہیں اور نہ ویسے شوق ہی باقی رہے ہیں۔ اب تو ہر کوئی اپنے اِن موبائل فونز میں ہی گم ہو کے رہ گیا ہے اور نہ کسی کے پاس وقت ہی رہا ہے اِن کتابوں کو پڑھنے کا۔
اور اب آخر میں! میں یہ کہوں گا کہ دوستو بلا شبہ جدید ٹیکنالوجی کے اس آج کے دور میں چاہے ہم کتنے ہی آگے کیوں نہ نکل جائیں مگر ہمیں یہ بھی کرنا چاہیے کہ اپنے قیمتی وِرثوں کو کسی نہ کسی صورت میں ہم زندہ بھی رکھیں اور اچھی اور علمی کتابوں کو بھی پڑھنے کے لیے تھوڑا وقت بھی ضرور نکالا کریں کہ کہیں ہم اِن کتابوں سے مکمل طور پہ ناواقف ہی نہ ہو جائیں۔
اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
وآخر دعونا أن الحمدلله رب العالمين
دُعاؤں میں یاد رکھیے گا۔ شکریہ
Twitter Handle: @MainBhiHoonPAK








