عوامی کرپشن اور چھوٹی چھوٹی بے ایمانیاں . تحریر : محمد عمران خان

جی ہاں ہم حکمرانوں کو دن رات صبح شام کرپٹ کرپٹ کہتے نہیں تھکتے حالانکہ حکمرانوں سے کہیں زیادہ کرپٹ ہم خود عوام ہیں ۔اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جی عوام کیسے کرپٹ ہو سکتے ہیں؟
تو پھر غور سے پوری تحریر پڑھ کے خود فیصلہ کیجئے کہ کیا ہم کرپٹ ہیں یا نہیں؟!
ایک بینک کے مینیجر سے شروع کرتے ہیں، کہ ‏‎بہت سے بینک منیجر اپنے کام سے بے خبر ہیں انکے زیر انتظام کارکن کا رویہ کلائنٹ کیساتھ ہتک امیز ہوتا ہے, مگر ان صاحب کے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگتی۔ تو کیا ہم اسے ایک ایماندار بینک مینیجر کہہ سکتے ہیں؟ جواب ہے نہیں!

اب آتے ہیں بڑے بڑے ڈاکٹروں کی طرف، ڈاکٹر حضرات نے جو سلسلہ شروع کیا ہوا ہے وہ کسی بھی ذی شعور سے ڈھکا چھپا ہر گز نہیں، مریضوں کی زندگی سے کھیلنے کا تو انکا شاید معمول بن چکا ہے، دوائی وہ لکھ کر دیں گے جو انکے بتائے گئے من پسند میڈیکل کے علاوہ آپکو کہیں اور نہیں ملے گی. چاہے وہ دوائی آپ کیلئے فائدہ مند ثابت ہو یا نہیں یہ آپکی قسمت، تو کیا ہم ان جیسے نام نہاد پڑھے لکھے ڈاکٹروں کو ایماندار کہہ سکتے ہیں؟ جواب ہے نہیں!

اب بات کرتے ہیں پیٹرول مافیا کی، انکی کارستانیوں کا کس کو نہیں معلوم کہ جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتو فورا بعد ہی قیمتیں بڑھا کر پچھلی قیمت پر خریدا ہوا تیل نئی قیمت پر فروخت کر کے کروڑوں روپے کماتے ہیں، لیکن اگر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی اعلان ہو جائے تو پہلے تو چند روز تک قیمت کم نہیں کرتے بلکہ اسی قیمت پر فروخت کرتے رہتے ہیں، پھر اگر کم کر بھی دیں تو تیل ڈالتے وقت پیمانے میں ایسی ردو بدل کرتے ہیں کہ قیمت بھی وصول ہو جاتی ہے اور گاہکوں کی جیب سے ہی وہ اپنا خسارہ پورا کر لیتے ہیں۔ سوال تو بنتا ہے نا ادھر کہ کیا ہم انہیں ایماندار کہہ سکتے ہیں؟ جواب سے آپ بخوبی واقف ہیں۔

چلیں شوگر مافیا کے کارنامے بھی دیکھ لیں، چینی اگر مہنگی ہو جائے تو ان کا رکھا ہوا سٹاک فورا باہر آنا شروع ہو جاتا ہے اور دھڑا دھڑ فروخت ہونے لگتا ہے لاکھوں کروڑوں اربوں روپے کماتے ہیں۔لیکن اگرخدانخواستہ چینی سستی ہو بھی جائے کسی طرح تو یہ بالکل بھی نہیں فروخت کرتے بلکہ اسٹاک کر لیتے ہیں چینی چھپا دیتے ہیں چینی مارکیٹوں میں ناپید ہو جاتی ہے پھر مجبورا ریٹ خود بخود بڑھ جاتے ہیں اور جب ریٹ بڑھ جاتے ہیں تو وہی چینی یہ لوگ نکال کے پھر فروخت کرنا شروع کر دیتے ہیں کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں اربوں روپے کروڑوں روپے کما کے یہ لوگ کہاں جاتے ہیں کدھر کرتے ہیں کیوں کرتے ہیں ایسا ؟کیا یہ ملک کے ساتھ پاکستان کی عوام کے ساتھ ہم غریبوں کے ساتھ ظلم نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟تو کیا ہم ان کو ایماندار کہہ سکتے ہیں؟ جواب ہے ہرگز ہرگز نہیں!
کس کس کا رونا روئیں شوگر مافیا، تیل مافیا، آٹا مافیا یا ایسے کئ مافیاز سے ہمارا ملک بھرا پڑا ہے۔

چھوڑیں ان بڑے بڑے مافیاز کو تو آپ ذرا چھوٹے لیول پہ آجائیں ہم آپ کو ان کی کارستانیاں بھی سناتے ہیں ۔ چھوٹے سے چھوٹے پرچون والے سے شروع کرتے ہیں ایک پرچون والا دکان دار اگر کسی کو ادھار چیز دیتا ہے تو 2 نمبر چیز دے گا اور ریٹ کم از کم دس فیصد زیادہ رکھے گا۔ ناپ تول میں کمی کرے گا۔ اگر کوئی نقد چیز لینے والا آئے تو اسے اچھی چیز دے گا۔ موجودہ ریٹ لگائے گا۔ اور یہ ان پر احسان نہیں کر رہا ہو گا پھر بھی اس میں کچھ نہ کچھ ضرور گڑبڑ کرے گا پرانا خراب شدہ مال نئے مال میں مکس کرکے بیچ دیتا ہے چاول دال وغیرہ جو پہلے سے خراب ہوئی پڑی ہوتی ہیں وہ نئے مال میں مکس کرکے بیچ دیتا ہے اچھا کہے کے ،اب جو لینے آئے گا وہ ایک ایک چیز تو چیک کرے گا نہیں لیکن جب وہ گھر جائے گا دیکھے گا استعمال کرے گا تو اس کو بعد میں پتہ چلے گا کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے۔ یہاں صرف یہ چیز نہیں ہے اور بھی اس طرح کی بہت سی خرابیاں ہوتی ہیں جو وہ لوگ کرتے ہیں اور خود کو ایماندار کہتے ہیں۔ ان کو کچھ نظر نہیں آتا کہ وہ اپنے لوگوں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں خود اپنے ساتھ وہ کیا کر رہے ہیں۔
تو کیا ہم اسے ایماندار کہہ سکتے ہیں جواب ہے نہیں!

ایک چھوٹے سے چھوٹا گنے کے رس کی ریڑھی والا وہ بھی اسی طرح کی بے ایمانی کرتا ہے گنے کے رس میں برف اتنی ڈال دے گا کہ ہر گلاس میں گنے کا رس آدھے گلاس سے بھی کم ہوگا باقی پورا گلاس پوری جگ اس کی برف سے اس کے برف والے پانی سے بھر جائے گی نمک ڈالے گا مصالحے ڈالے گا اس طرح کی چیزیں ڈالے گا پورا کرکے آپ کو گلاس یا جگ پکڑا دے گا یہ آپ کا گنے کا رس پئیں اس میں زیادہ پانی ہوگا اور معمولی سا گنے کا رس ہوگا۔ اور گنا خراب ہے اچھا ہے جیسا بھی ہے وہ اپنی جوس والی مشین میں ڈال دے گا اور آپ کو اس کا رس نکال کر دے دے گا اس میں گنے میں کیڑے تھے اچھا تھا برا تھا یہ آپ کی قسمت آپ کو بس رس پینا ہے۔ تو کیا ہم اسے ایماندار کہہ سکتے ہیں؟ جواب ہے نہیں!

شہر سے نکل کرآپ دیہات کی طرف آ جائیں جو لوگ فصلیں اگاتے ہیں کپاس، گنا ،گندم ،چاول وغیرہ جو چیز لوگ اگاتے ہیں وہ اپنی فصل کی دیکھ بھال کیسے کرتے ہیں شاید ہی کوئی ہو گا جو اچھا پانی دیتا ہوگا اپنا حلال کا پانی دیتا ہوگا اپنا ٹیوب ویل استعمال کرتا ہوگا شاید ہی کوئی قسمت والا مل جائے۔ لیکن اکثر میں نے خود دیکھا ہے کہ بے ایمانی سے کھیتوں میں پانی ڈالتے ہیں چوری کا پانی لیتے ہیں رات کو کافی کافی دیر تک جاگتے ہیں جب دیکھتے کوئی نہیں ہوتا تو چوری کا پانی کھول کے اپنی فصلوں کو دیتے ہیں چاہے وہ کپاس ہو چاہے وہ چاول ہو چاہے وہ گنے کی فصل ہو کچھ بھی ہو چوری کا پانی دے کے چوری کی فصل اگا کے حرام اس میں شامل کرکے وہ خود کو ایماندار سمجھتا ہے۔ وہ خود کے ساتھ اتنا ظلم کر رہے ہوتے ہیں کہ ان کو اندازہ ہی نہیں ہوتا نہ تو وہ اپنے بچوں کو حلال کھلا رہے ہوتے ہیں نا خود کھا رہے ہوتے ہیں اور نہ آنے والی ان کی نسلیں حلال کھائیں گی ۔ سب کے سب اس میں شامل ہیں۔ تو کیا ہم انہیں ایماندار کہہ سکتے ہیں ؟ہر گز نہیں!

بڑے سے بڑے وکیل کیس چاہے جیسا بھی ہو اگلے کا قتل بھی ہو چکا ہو اگلا بہت مجبور ہو لاچار ہو لاوارث ہو اس کے پاس پیسے نہیں ہیں وہ وکیل نہیں کر سکتا تو اس کو انصاف نہیں ملے گا۔ لیکن دوسری طرف اگر اس نے قتل کیا ہو اس نے زیادتی کی ہو اس نے بچوں کا ریپ کیا ہو اس نے بڑی سے بڑی زیادتی بڑے سے بڑا جرم کیا ہو اور اچھے سے اچھا وکیل اتنا سارا پیسہ دے کہ اگر وہ خرید لیتا ہے تو وہ وکیل جی جان سے اس کو جتوانے کے لئے کیس لڑے گا اور آخر اس کو کیس جتوا کر کے ہی دم لے گا تو کیا وہ وکیل نے جو پیسے لیے وہ کرپشن نہیں ہے کیا وہ بے ایمانی نہیں ہے کیا وہ اپنی نسلوں کے ساتھ ظلم نہیں کر رہا جواب ہے کہ ہاں بالکل کر رہا ہے۔ تو کیا ہم اسے ایماندار کہہ سکتے ہیں؟ جواب ہے کہ نہیں!

ڈیجیٹل میڈیا پربیٹھے ہوئے صحافی شاید ہی کوئی ایماندار ہو گا اکثریت دیکھنے میں آتی ہے کہ جھوٹی خبریں شیئر کرتے ہیں دوسری پارٹیوں سے پیسے لے کے حکومت پر تنقید کرتے ہیں حکومت سے پیسے لے کے دوسری پارٹیوں پر تنقید کرتے ہیں جو پارٹی ان کو پیسے دے ان کی ہر بری چیز اچھی کر کے دکھاتے ہیں اور جو پیسے نہ دے جو اپنا پیسہ حرام نہ کرے حلال کر کے اپنی قوم کو کھلائے اور ان لفافہ صحافیوں کو پیسے نہ دے وہ بیچارا ایسے ہی ذلیل ہوتا رہے گا دن رات سوشل میڈیا پر بھی اور ڈیجیٹل میڈیا پر بھی یہ میں صرف ایک آدمی کی بات نہیں کر رہا،ایسے شاید کئ لوگ ہوں گے۔
تو کیا ہم انہیں ایماندار کہہ سکتے ہیں؟ بالکل بھی نہیں!

سکول مافیا کی بات کر لیتے ہیں سکول مافیا وہ مافیا ہے جو اپنے پرائیویٹ سکولوں میں دس دس جماعت پڑھے ہوئے لوگوں کو استاد بنا کر پیش کر دیتے ہیں چند ہزار روپوں کے چکر میں آنے والی نسلوں کو بچوں کو ان سے تعلیم دلوا کے جو خود پڑھے لکھے نہیں ہوتے جن کو خود تعلیم حاصل کرنی چاہیے وہ بچوں کو پڑھا رہے ہوتے ہیں کیا پڑھا رہے ہیں؟ انہیں صرف پرائیویٹ سکول کو چلانے کے لیے ان جیسے لوگوں کو چند روپوں میں خرید کے بچوں سے پھر اس کی قیمت وصول کرتے ہیں، اربوں روپے کروڑوں روپے ان بچوں سے صرف اس مد میں وصول کیے جاتے ہیں کہ ان کو تعلیم دی جا رہی ہے۔ ان کو تعلیم کیا دی جارہی ہے یہ نہ تو ہم جانتے ہیں نہ بچوں کے والدین جانتے ہیں اور نہ خود پڑھنے والے بچے جانتے ہیں۔ تو کیا ہم انہیں ایماندار کہہ سکتے ہیں؟ یا استاد کہہ سکتے ہیں ؟جواب ہے کہ بالکل بھی نہیں!
میری ایک چھوٹی سی تحریر سے شاید کچھ لوگ اتفاق نہ کریں لیکن حقیقت یہی ہے امید کروں گا کہ آپ سب کو پسند آئے گی ان شاء اللہ ۔اللہ تعالی ہم سب کو ان چھوٹی چھوٹی بے ایمانیوں سے محفوظ رکھے اور ہم سب کو رزق حلال کھانے اور کمانے کی توفیق عطا فرمائے ، اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو، آمین یا رب آمین!

@Imran1Khaan

Comments are closed.