اسٹینڈرڈ چارٹرڈ نے توقع ظاہرکی ہے کہ سنہ 2021ء میں عالمی ترقی کی شرح 5.8 فیصد رہے گی جبکہ سنہ 2020ء میں یہ شرح 3.3 فیصد تھی، اس کی وجہ معیشت کا کھلنا اورویکسی نیشن کے عمل میں تیزی ہے، حالیہ گلوبل فوکس کے مطابق جس میں تیسری سہ ماہی کے لیے بینک کی اقتصادی پیش گوئیاں بھی شامل ہیں، منظرنامے میں تنزلی کے دواہم خطرات کا تذکرہ کیا گیا ہے:

(1) نئے ویری اینٹس کی وبا کے کیسوں میں ایک مرتبہ پھر تیزی جو پابندیوں کے نفاذ میں دوبارہ توسیع کا باعث بن سکتی ہے اور
(2) افراط زر میں مسلسل اضافہ جو صارفین کے اعتماد کو نقصان پہنچا سکتا ہے اورمانیٹری پالیسی میں فوری طورپرسختی کے لیے مجبورکرسکتا ہے۔

یہ دونوں خطرات ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں کیوں کہ کووِڈ کے دوبارہ پھیلنے اورعالمی سطح پر پیدوارمیں رکاوٹ بننے کی صورت میں موجودہ سپلائی چین (اور متعلق اخراجات) پر پڑنے والا دباؤمزید شدت اختیار کرسکتا ہے، کووڈ19 کے پہلے کیس سے اب تک اٹھارہ ماہ کے دوران دنیا کے بعض حصوں میں وبا ایک مرتبہ پھرسراٹھا رہی ہے، جبکہ دیگرحصے بحران کے وسط میں ہیں، اس سال میں،اب تک،عالمی سطح پر کیسز کی تعداد سنہ 2020ء کی کل تعداد سے زیادہ ہے جبکہ ذیلی صحرائی افریقہ(ایس ایس اے)، ایشیا،لاطینی امریکا اور مشرق وسطی ٰکو نئی لہر کا سامنا ہے اورویکسی نیشن کی شرح ابھی بھی کم ہے، اس کے برخلاف، بڑی ترقی یافتہ معیشتوں میں، ویکسی نیشن کے جدید پروگرام وبا پرقابو پا رہے ہیں اورپابندیاں نرم ہورہی ہے۔

وبا پرقابو پا نے کے باعث عالمی مجموعی پیداوار(جی ڈی پی) اورتجارت کا حجم دونوں عالمی مالی بحران کے بعد تیزی سے بحال ہو رہے ہیں، چین کا جی ڈی پی واپس آچکا ہے (اورایک ایسی سطح پر پہنچ چکا ہے، جس کی رفتار، وبا کےعروج پر پہنچنے سے، دیکھی گئی تھی) بینک کو اب بھی توقع ہے کہ اس سال بھی یہ شرح 8 فیصد رہے گی۔

کووِڈ کے کیسوں میں دوبارہ تیزی کے باعث، پورے ایشیا میں سرگرمی دوبارہ سست ہوگئی ہے۔ بھارت، سنگاپور، انڈونیشیا اورجاپان کے بارے میں توقع نہیں کہ اْن کا جی ڈی پی سنہ 2021ء کی تیسری سہ ماہی تک وبا سے پہلے کی سطح پرواپس آ سکے، اپریل کے اوائل میں گزشتہ گلوبل فوکس سے اب تک، اسٹینڈرڈ چارٹرڈ نے، اِن معیشتوں کے بارے میں، اپنی 2021ء کے حوالے سے جی ڈی پی کی پیشگوئیوں میں کمی کی ہے لیکن اس میں سنگاپورکواستثنیٰ ٰحاصل ہے جہاں پابندیوں کے باوجود سرگرمی نے لچک ظاہرکی ہے۔

ترقی یافتہ معیشتوں میں، جو وبا سے بہت زیادہ متاثر ہو ئیں تھیں، بینک کو توقع ہے کہ امریکہ میں سنہ 2021ء کے آخر تک جی ڈی پی کا رْجحان لوٹ آئے گا جس کی وجہ بھاری مالی امداد ہے؛ اس نے سنہ 2021ء میں 6.5 فیصد کی شرح سے جی ڈی پی کی ترقی کی پیش گوئی برقرار رکھی ہے۔ یورو کا شعبہ،چونکہ وبا کے دوران، دوہری کساد بازاری کے باعث بہت زیادہ متاثر ہوا تھا، مکمل طور پر بحال نہ ہو سکے۔ بینک نے سنہ 2021ء کے لیے اپنی پیش گوئی 4.5 فیصد کی ہے بشرطیکہ ویکسی نیشن کی پیش رفت بہت اچھی ر ہے اور آبادی کا نصف سے زائد حصہ کم از کم ایک ڈوز لگوائے۔

عالمی برآمدات کا حجم اب 3.9 فیصد ہے جو وبا سے پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہے، تجارت میں عمدہ اضافے سے برآمدات پرانحصار کرنے والی معیشتوں (مثلاً تائیوان اور ویت نام) اوراشیا تیار کرنے والی معیشتوں (مثلاً چلی) کو خصوصی طور پرفائدہ پہنچا ہے، اسٹینڈرڈ چارٹرڈ کوتوقع ہے کہ یہ تحریک جاری رہے گی جسے صارفین کی محدود طلب سے بھی مدد ملے ہے کیوں کہ بے روزگاری میں کمی ہوگی معاشی بحالی کے دوران بچتیں استعمال کی جائیں گی۔

ترقی یافتہ معیشتوں میں، وبا کے دوران بچتوں میں اضافے کے باعث اخراجات میں اضافے کے امکانات میں بھی اضافہ کیا ہے بشرطیکہ معیشتیں معمول پر آ جائیں اور پابندیاں مکمل طور پراٹھا لی جائیں، تاہم، متعدد عوامل اشیاء اور خدمات پر زیادہ اخراجات پر بچتوں کے استعمال کو محدود کرسکتے ہیں، احتیاط کے طور پرکی جانے والی بچتیں اب بھی زیادہ رہیں، بالخصوص گھریلو سطح پرٹیکسین میں اضافہ تاکہ سرکاری قرضوں میں کمی کی جا سکے، بینک کو، آئندہ چند برسوں کے دوران، معمول کے مطابق بچت کی شرح پر اچانک واپسی کی بجائے بتدریج واپسی کی توقع ہے۔

اسٹینڈرڈ چارٹرڈ کی ہیڈ آف ریسرچ، یورپ اینڈ امریکاز، سارہ ہیون نے کہا: ”اس منظر نامے کے لیے وبا تنزلی کے خطرات پیدا کرتی رہے گی۔ ’ڈیلٹا پلس‘ ویری اینٹ کا زیادہ تیزی سے پھیلاؤ، جو ممکن طورپربہت زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے، یہ بات واضح کرتا ہے کہ نیا ویری اینٹ اس وقت تک نمایاں خطرات پیدا کرتا رہے گا جب ان کیسوں پر مناسب حد تک قابو نہیں پا لیا جاتا ہے، ڈیلٹا ویری اینٹ کے خلاف تحفظ کے لیے 90 فیصد سے زائد آبادی کی ویکسی نیشن کی ضرورت ہو گی، دوسری جانب یورپین یونین اور چین اس سطح تک ستمبر یا اکتوبر تک پہنچنے والے ہیں لیکن امریکہ میں ویکسی نیشن میں حالیہ سست روی سے معلوم ہوتا ہے کہ 90 فیصد کے سطح فروری 2022ء تک بھی نہیں پہنچ سکے گی۔“

Shares: