حسد عربی ذبان کا لفظ ہے
جسکے معنی ہیں جلن، کینہ پروری ،بدخواہی کے ہیں۔ اگر اس کے مفہوم کو دیکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی کی کامیابی اور خدادا صلاحیتوں کو برداشت نا کرنے کا نام ہے۔ اور دل میں یہ خیال آنا کے اس کو ہی یہ سب کچھ کیوں مل رہا ہے کیا مجھ میں ایسی کوئی کمی ہے جیسا کے کسی کی شہرت،دولت ، علم، کامیابی کو دیکھ کر جلنا کہ یہ سب میرے پاس کیوں نہیں ہے۔اصل میں ایمان کی کمزوری ہی انسان کو حسد کی طرف لے کر جاتی ہے دنیاوی چیزوں کی ہوس اور لالچ انسان کو تباہ کر دیتی ہے ۔اللہ تعالی کی دی ہوئی صلاحیتوں سے جلن کرنا بے حد بیوقوفی کی علامت ہے۔ اس طرح کے متعد سوالات جہنم لیتے ہیں جس سے دل میں بدخوی پیدا ہو جاتی ہے اور انسان حسد کرنے لگ جاتا ہے اور نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے ۔اج کل معاشرے میں حسد جیسی برائی عام ہو چکی ہے ۔ اس وجہ سے لوگوں میں نفرت اور تشدد کا رحجان پیدا ہو چکا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بہتان اور الزام تراشی بھی بڑھ رہی ہے ۔زاتی زندگیوں کو نشانہ بنا یا جاتا ہے کریکٹر کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس طرح کے رحجان سے معاشرے میں انتہا کی جہالت پھیل چکی ہے۔ ایک دوسرے سے سبقت لیے جانےمیں یہ بھول چکے ہیں کہ اخلاقی رویہ بھی کوئی چیز ہوتا ہے ۔اسی لیے اسلام میں بھی اس پہ ذور دیا گیا ہے کہ حسد سے بچیں عقل کو کھا جاتا ہے دوسروں کا نقصان کرتے کرتے اپنا نقصان ہو جاتا ہے۔یہ بھول جاتاہے کہ عزت وذلت اور ترقی و تنزل اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ ۔
اللہ تعالیٰ نے بہت صاف اور واضح طورپر ارشاد فرمایاہے
کہو : اے اللہ! ملک کے مالک! تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے، جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کردے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔(اٰل عمران
)3:26)
اللہ تعالی ہی کی زات ہے جو انسان کو صلاحیتوں سے نوازتی ہے ۔جس کی قدرت کیے بغیر ایک پتا تک نہیں ہل سکتا ہے ۔زوال اور عروج انسان کی زندگیوں سے جڑے ہیں۔ کبھی نعمتیں چھن بھی جاتی ہے اور کبھی انسان کے گمان میں بھی نہیں ہوتا وہ کچھ مل جاتا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا کرنی چاہیے اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے ۔حسد اخلاقی برائیوں کی ایک قسم ہے جس سے انسان کی شخصیت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے ۔حسد کرنا ذہنی پستی کی علا مت ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک بہت مشہور حدیث ہے کہ ایک بار غریب و مفلس مہاجرین کی ایک جماعت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ عرض کی: یارسول اللہ! مال دارو خوش حال لوگ مرتبے میں ہم سے آگے بڑھتے جارہے ہیں۔ وہ لوگ ہماری ہی طرح نمازیں پڑھتے ہیں، ہماری ہی طرح روزے رکھتے ہیں، لیکن ان سب کے ساتھ ساتھ چوں کہ وہ ارباب ثروت ہیں، اس لیے وہ حج بھی کرلیتے ہیں، عمرہ بھی کرلیتے ہیں اور جب جہادکا وقت آتاہے تو وہ مال و دولت سے بھرپور مدد کرتے ہیں، صدقہ و خیرات کرتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر غریبوں،مفلسوں اور حاجت مندوں کی بھی امداد کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ ہم ان پر سبقت نہیں حاصل کرسکتے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کی اْس جماعت کی بات سنی اور ارشاد فرمایا: کیا میں تم کو ایسا عمل نہ بتادوں، جس سے تم بھی ان سب کے برابر ہوجاؤ، تم اپنے پیچھے رہنے والوں سے بہت آگے بڑھ جاؤ، اور تمھاری برابری اْن لوگوں کے سوا کوئی نہ کرسکے جو وہی عمل کریں، جو میں تمھیں بتانا چاہتاہوں؟ سب نے خوشی خوشی بہ یک زبان کہا: کیوں نہیں ، اے اللہ کے رسولؐ! ضرور ارشاد فرمائیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے شوق وطلب کو دیکھتے ہوئے ارشاد فرمایا: ہر فرض نماز کے بعد 33، 33 مرتبہ سبحان اللہ، الحمد للہ اور 34مرتبہ اللہ اکبر کہہ لیا کرو۔ (بخاری، مسلم، بیہقی، کتاب الصلوٰۃ ، باب ما یقول بعد السلام، حدیث: 348)
حسد سے بچنے کیلئے ہمیں سب سے پہلے اپنے اخلاقی رویوں کو درست کر نا ہے برداشت پیدا کرنی ہے ۔دوسروں کی کامیابی اور خوشیوں پہ خوش ہونا ہے ان کی خوشی میں شامل ہونا چاہیے۔جس سے انسان کے اندر مثبت تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ مزید یہ کہ انسان خود بھی خوش رہتا ہے مایوسی سے بچ سکتا ہے۔اللہ تعالی پہ کامل اور بھروسے سے سب کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ہم محنت اور لگن سے جو چاہتے ہیں حاصل کر سکتے ہیں کوئی انسان بھی کسی سے کم نہیں ہے اللہ تعالی نے سب کو ایک جیسا دماغ دیا ہوا ہے اس کا صحیح اور درست استمال کیا جائے تو ہم تو وہ کچھ حاصل کر سکتے ہیں جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں اور معاشرے میں ایک مثبت کردار ادا کر سکتےہیں ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
تم سے پچھلی امتوں کی بیماریوں میں سے بغض و حسد کی بیماری تمھارے اندر سرایت کرگئی ہے۔ کیا میں تمھیں کوئی ایسی چیز نہ بتاؤں، جو تمھارے اندر محبت پیداکردے؟ وہ یہ ہے کہ تم باہم سلام کو عام کرو۔

@JeeTaiba

Shares: