ظالم پردیس تحریر-سید لعل حسین بُخاری

0
86

دیار غیر میں رہنے والوں کی زندگی بہت ہی مُشکل ہوتی ہے،تاہم ایک شخص کی قُربانی باقی فیملی ممبران کے لئے آسودگی اور آسائشیں ضرور لاتی ہے،جو گھاٹے کا سودا نہیں۔
پردیسیوں کے لئے مشکل ترین لمحات وہ ہوتے ہیں،جب وہ اپنوں کی خوشی اور بالخصوص غم میں عملی طور پر شریک نہیں ہو پاتے
جب سے کرونا آیا ہے،اوورسیز کی مشکلات اور بھی بڑھ گئی ہیں۔
آنے جانے کے لئے فلائیٹس کی بندش اور پھر ہوٹل قرنطینہ کے اخراجات اوورسیز کے لئے وبال جان بنے ہوۓ ہیں۔
جن لوگوں کے چولہے دیار غیر میں مزدوری کرنے والوں کے دم سے چلتے ہیں۔وہ اس وقت مشکلات کا شکار ہیں، کیونکہ بہت سے لوگ ان ملکوں سے پاکستان آ کے پھنسے ہوۓ ہیں۔ہر وقت وہ لوگ متبادل راستوں کی تلاش میں ہیں کہ کسی طرح واپس اپنی نوکریوں پر پہنچاجا سکے۔
کچھ کی تو لمبا عرصہ غیر حاضری کی وجہ سے نوکریاں بھی جا چکی ہیں،کچھ کے ویزے ایکسپائر ہو چُکے ہیں،
ایسے لوگوں کی مدد اور سہولت کاری کے لئے حکومت پاکستان کو آگے آنا چاہیے۔
کیونکہ انہیں لوگوں کی بدولت زرمبادلہ کے زخائر ریکارڈ سطح پر پہچے ہوۓ ہیں۔بیرون ملک سے آنے والا یہ پیسہ ہماری ملکی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے-
اگر ان پھنسے ہوۓمتاثرہ پاکستانیوں کی مدد نہ کی گئی تو خدشہ ہے کہ زرمبادلہ میں کمی پیدا ہو سکتی ہے،جو کسی طور پر بھی معیشت کے لئے اچھی خبر نہ ہو گی-
پردیسیوں کو جن جن مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے،ان کا احاطہ کسی ایک کالم میں ناممکن ہے۔
میں خود چونکہ عرصہ دراز سے محنت مزدوری کی غرض سے دیار غیر میں مقیم ہوں،اسلئے میں اپنے پردیسی بھائیوں کے دُکھ بھی اچھی طرح سمجھ سکتا ہوں۔
یہاں کئی دفعہ لوگ کھانے کے لئے بیٹھتے ہیں تو انکی سوچیں کہیں اور ہوتی ہیں،
کچھ لوگ تو کھانے کی میز پر بیٹھ کر پہروں چھت کو گھورتے رہتے ہیں۔
کچھ لاگ راتوں کو ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھتے ہیں۔
ان سب کے لاشعور میں اپنے پیاروں کی یادیں اور ضروریات ہوتی ہیں
اُنکی سوچ کا محور بس یہی ہوتا ہے کہ کس طرح وہ اپنے اہل خانہ کی ضروریات اور فرمائشیں پوری کر سکیں۔
وہ کس طرح گھر بنا سکیں۔
وہ کس طرح موٹر سائیکل یا گاڑی اپنے پیاروں کو خرید کے دے سکیں۔
یہی سوچیں پردیسیوں کو مضطرب کئے رکھتی ہیں۔
ان پردیسیوں میں کچھ مُٹھی بھر ایسے بھی ہوتے ہیں،جو وہاں جا کر بے راہ روی کا شکار ہو کر اپنے خاندانوں کو بھول جاتے ہیں۔
کئی ملکوں میں آسانی سے ملنے والی عیاشیاں انہیں بہکا دیتی ہیں۔
وہ بھول جاتے ہیں کہ پردیس میں آنے کا مقصد کیا تھا؟
تاہم ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔
زیادہ تر لوگ اپنے مقصد پر سختی سے کاربند رہتے ہیں۔وہ رات دن ایک کئے رکھتے ہیں۔وہ لوگ چھٹی والے دن بھی اوور ٹائم پر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔وہ لوگ ایک کولڈ ڈرنک پینے سے پہلے بھی سو بار سوچتے ہیں کہ یہ لگژری کروں یا نہ کروں ؟
یہ لوگ فیملی کے لئے لاکھوں خرچ کر دیں گے مگر اپنی زات پر ایک ریال خرچ کرنا بھی انکے وارے میں نہیں ہوتا۔
یہ وہ جزبہ ہے جسکی دیار غیر میں بسنے والے افراد کے خاندانوں کو قدر کرنی چاہیے۔انہیں سوچنا چاہیے کہ وہ بھی فضول خرچی نہ کریں،
فرمائشوں کے انبار لگا کر اپنے پیاروں کی زندگیوں کو مشکل سے مشکل تر نہ بنائیں۔
انہیں یہ بات زہن نشین کرنی چاہیے کہ غیر ممالک میں پیسہ درختوں پہ نہیں اُگتا۔
اسکے حصول کے لئے 50ڈگری درجہ حرارت میں کام کرنا پڑتا ہے،
روزانہ کی بنیادوں پر مٹی کے ساتھ مٹی ہونا پڑتا ہے۔
ہر طرح کے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں،
صحراؤں میں چلنے والے گرد آلود طوفانوں کا سامنا کر کے نوٹ کماۓ جاتے ہیں۔
اس محنت اور حق حلال کی کمائ کا مصرف بھی بڑا سوچ سمجھ کے ہی ہونا چاہیے۔
پردیس کے باسیوں کے لواحقین کو چاہیے کہ اگر ہو سکے تو کچھ بچت بھی کر لیا کریں ،
کیونکہ ان کے کماؤ پوت نے ساری زندگی وہاں نہیں رہنا۔
ایک نہ ایک دن اس نے واپس آنا ہے،
اس وقت ہو سکتا ہے کہ اسے کسی کاروبار کے لئے کچھ سرماۓ کی ضرورت پڑے۔
اُس وقت آپ بھی اسے سرپرائز دیں تا کہ اسکی زندگی بھر کی تھکن دور ہو جاۓ-#

تحریر-سید لعل حسین بُخاری
@lalbukhari

Leave a reply