اسلام محض دین نہیں بلکہ ایک ضابطہ حیات ہے۔ جو انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حقوق العباد کے ذریعے تمام بنی نوع انسانوں کے حقوق و فرائض بیان کردیے گئے ہیں۔
دوسرے کا حق، ہمارا فرض ہوتا ہے، جسے ادا کرنا لازم ہے۔
حقوق کے بارے میں عورتوں کو ہمیشہ پس پشت ہی رکھا گیا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں طرح طرح کے ظلم و ستم عورتوں پہ ڈھائے گئے۔
لیکن اسلام نے عورت کو عزت بخشی، گھر کی زینت بنایا، اگر ماں ہے تو جنت ہے اور اگر بیٹی ہے تو رحمت۔

اللہ تعالیٰ سورة النساء میں فرماتے ہیں کہ؛

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ وَّ بِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ ؕ
ترجمہ؛ مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالٰی نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نےاپنے مال خرچ کئے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اگر مرد کو فضیلت بخشی ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مرد، عورتوں کو زر خرید غلام سمجھنے لگے۔ بلکہ دونوں کی اپنی اپنی زمہ داریاں ہیں جن کی ادائیگی سے صحت مند معاشرے پروان چڑھتے ہیں۔

پاکستان میں بھی عورتوں کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہے۔
خواہ تعلیم حاصل کرنا ہو یا خود سے روزگار کمانا ہو، عورت بااختیار ہے۔
بلکہ قوم کی کئ بہادر بیٹیوں نے پاکستان کا نام فخر سے بلند کیا ہے۔ جن میں فاطمہ جناح، رعنا لیاقت، بلقیس ایدھی، ڈاکٹر ثانیہ نشتر، ڈاکٹر سارہ قریشی، منیبہ مزاری اور خواتین کرکٹ ٹیم کی ثناء میر سر فہرست ہیں۔
دفاعی میدان میں بھی پاک دھرتی کی بیٹیوں نے محنت سے اپنا لوہا منوایا ہے جیسے نگار جوہر، شازیہ پروین اور شہید مریم مختار وغیرہ۔
پس ثابت ہوا کہ عورت با حیا انداز میں دنیا کے کسی بھی شعبے سے وابستہ ہو سکتی ہے۔ یہاں تک کہ روزگار بھی کما سکتی ہے۔
اللہ نے خاص عورتوں سے بات کرنے کے لیے سورة النساء نازل فرمائی ہے۔ جس میں عورتوں سے متعلق تمام تر امور تفصیل سے بیان فرما دیے۔ زمانہ جاہلیت میں، اسلام سے قبل عورتوں کا وراثت میں کوئی حصّہ نہ تھا مگر اسلام نے عورتوں کا حق مقرر کیا۔
پر افسوس! کچھ عورتیں اللہ کا فرمان نہیں مانتی۔ نہ پردہ کرتی ہیں نہ حیاء۔
پھر لوگ بھی پریشان کرتے ہیں اور شیطان بھی۔
اور اپنی اس بے پردگی کو آزادی کا نام دیتی ہیں؟؟؟

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا: ’’ایمان کی ساٹھ سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘​

حیاء عورت کا زیور ہے۔ پردہ عورت کو باقی تمام عورتوں سے مختلف شناخت دیتا ہے تاکہ اسلام کی بیٹی پہچانی جائے۔

اللہ تعالیٰ سورة الاحزاب میں فرماتے ہیں کہ؛

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ یُّعۡرَفۡنَ فَلَا یُؤۡذَیۡنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا
ترجمہ؛ اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں ۔ اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی اور اللہ تعالٰی بخشنے والا مہربان ہے ۔

مگر کچھ ایسی خواتین بھی ہیں، جو آزادی کے نام پر بے حیائی پھیلا رہی ہیں۔
کچھ جھوٹی شہرت تو کچھ چند پیسوں کے عوض گھٹیا تحریک ” میرا جسم، میری مرضی” میں ملوث ہیں۔ یہ عورت مارچ، معاشرتی بگاڑ کے علاوہ کچھ نہیں۔
اگر کم کپڑے پہننا یا بے لگام گھومتے پھرتے رہنا ‘ ماڈرنیزم ‘ ہے تو جانور ان عورتوں سے زیادہ جدید ہیں۔
قرآن و حدیث میں پہلے ہی عورتوں کے حقوق و فرائض بیان فرما دیے گئے ہیں۔
تو پھر انھیں کونسا حق چاہیے؟؟
کونسی آزادی چاہئے؟؟ کیا یہ باپ سے آزادی چاہتی ہیں جو سراپا شفقت ہے۔ یا بھائی سے؟؟ جو محافظ ہے۔ یا پھر اپنے ہی شوہروں سے؟؟

ایسی عورتیں جعلی کیسز بناتی ہیں کبھی ذاتی تشہیر کے لیے تو کبھی پیسوں کے لیے اور مردوں پہ الزام لگاتی ہیں۔
ایسے جعلی کیسز، حقیقی مظلوموں کے انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ ایسی چال باز عورتوں کو جہاں موقع ملے وہاں ہی بے نقاب کرنا چاہیے کیونکہ یہ عورت کے وقار پہ دھبہ ہیں۔

کیسے ہوگی اب اس فرض کی پاسداری
عمل سے دور ہوگئ بنتِ حوا بیچاری
تقدس ہوا پامال بے حجابی کے دور میں
روک اسے نہ پائی گھر کی چار دیواری

یہ عورتیں اس گندی مچھلی کی مانند ہیں جو پورے تالاب کو گندہ کر دیتی ہیں۔
لیکن اس سب کے باوجود ہماری قوم کی بیٹیاں، مردوں کے شانہ بشانہ ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔
اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ آمین

‎@HaroonForPak

Shares: