لوگ کیا کہیں گے تحریر: فوزیہ چوہدری

لوگ کیا کہیں گے؟ اس سوال کی گونج بہت زیادہ ہے ہماری زندگی میں اور یہ سوال لوگ کیا کہیں گے ہماری خواہشات اور خوشیوں پر سبقت لے جاتا ہے اور انسان اپنی ہی خوشیوں کا گلا گھونٹ دیتا ہے صرف اس ڈر سے کے لوگ کیا کہیں گے۔
ویسے تو فلموں ڈراموں میں آپ نے بہت ہی خوفناک کردار دیکھے ہوں گے لیکن ہماری اصل زندگی میں یہ کردار پائے جاتے ہیں اور وہ کردار نبھاتے ہیں لوگ۔۔۔۔۔ جی ہاں لوگ اور انکی کڑوی باتیں جو کہ جینا مشکل کر دیتی ہیں اور ہم خود بھی لوگوں میں ہی آ تے ہیں اگر کوئی ہماری پسند یا کسی بھی کام پر سوال اٹھائے یا اپنی رائے دے تو ہمیں غصہ آ تا ہے پر ایسا کچھ ہمیں اپنے پڑوس کے بچوں یا پھر خالہ کی بیٹی یا بیٹے کے بارے میں یہ پتا چلے کے وہ پیانو بجانا سیکھنا چاہتا / چاہتی ہے تو ہم خود بھی وہ ہی حرکت کرتے جو کہ لوگوں نے ہمارے ساتھ کیا ہو سوال اٹھاتے ہیں یا یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ بھی کوئی سیکھنے کی چیز ہے صرف وقت کی بربادی ہے وغیرہ وغیرہ۔
لوگ کیا کہیں گے سوال اتنا ہمارے دماغ پر سوار ہو چکا ہے کے ہر بات پر سوچتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے؟
اتنی ڈارک لپ اسٹک لوگ کیا کہیں گے ؟
اتنی اونچی ہیل لوگ کیا کہیں گے؟
میٹرک سائنس کے ساتھ نہیں کیا تو لوگ کیا کہیں گے؟
پسند کی شادی کر لی تو لوگ کیا کہیں گے؟
ایسے اور بہت سے لمحات ہماری زندگی میں آ تے ہیں جب ہم یہ سوچ کر خاموش ہو جاتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔
اس بات پر غور کرنے والا انسان کہ لوگ کیا کہیں گے ہمیشہ ناکام ہی رہتا ہے زندگی میں کبھی آ گے نہیں بڑھ سکتا کیونکہ ایسے انسان کی اپنی کوئی سوچ اپنی کوئی پسند نہیں ہوتی وہ ہمیشہ دوسروں پر ڈیپینڈنٹ ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے لیے ہم سفر بھی وہ ہی پسند کرتا ہے جو لوگوں کو اسکے ساتھ اچھا لگے۔
اکثر ماں باپ اپنے بچوں کی پسند سے شادی اس ڈر سے نہیں کرتے کہ لوگ کیا کہیں گے اتنے ایڈوانس ہیں اتنی چھوٹ دے رکھی ہے اپنے بچوں کو؟ تو خدارا زرا اس بات پر بھی غور کریں کے زندگی آ پ کے بچوں نے گزارنی ہے نہ کہ لوگوں نے مت سوچئے کہ لوگ کیا کہیں گے۔
کیونکہ لوگوں کا کام ہے بس باتیں بنانا یہ کسی بھی حال میں خوش نہیں ہوتے۔اس بات کو میں ایک کہانی سے بھی سمجھانا چاہوں گی۔
ایک باپ اور بیٹا پیدل چل رہے تھے اپنے گدھے کے ساتھ تو کچھ لوگوں کی باتیں انکے کام میں پڑی کہ دیکھو کتنے بیوقوف ہیں گدھے کے ہوتے ہوئے پیدل چل رہے ہیں تو انہوں نے سوچا کہ ہم گدھے پر بیٹھ جاتے ہیں تھوڑا ہی آگے گئے تو پھر سے کچھ لوگ بولے دیکھو کتنے ظالم ہیں دونوں ہی گدھے پر بیٹھے ہیں کتنا بوجھ ڈالا ہے گدھے پر اس بات کو سن کر باپ نے فیصلہ کیا کہ وہ پیدل چلے گا اور بیٹے کو گدھے پر بیٹھا رہنے دے گا پھر تھوڑا آ گے گئے تو لوگوں نے باتیں کی کہ دیکھوں کتنا بدتمیز بیٹا ہے باپ کو پیدل چلا رہا ہے اور خود گدھے پر سوار ہے بیٹا اتر گیا اور باپ کو بٹھا دیا گدھے پر پھر تھوڑا آ گے گئے تو لوگوں نے باتیں کی کہ دیکھو اس ظالم باپ کو خود گدھے پر سوار ہے اور بیٹے کو پیدل چلا رہا ہے اس بات کو سنتے ہی باپ بھی اتر گیا اور اپنے بیٹے سے کہا کہ یہ لوگ کسی حال میں بھی خوش نہیں ہیں اس کا واحد حل صرف اتنا ہے کہ لوگوں کی باتوں کو نظر انداز کریں اور آ گے بڑھیں ۔
ہم نے خود لوگوں کو یہ اختیار دے رکھا ہے کہ وہ ہماری زندگی کا فیصلہ لے سکیں یقین جانیں جس دن آ پ نے یہ سوچ لیا کہ یہ آ پکی زندگی ہے اور اسکا ہر فیصلہ کرنے کا حق صرف اور صرف آ پکا ہے اس دن آ پکی زندگی کو ایک نیا رنگ ملے گا اور آ پ زندگی جینا سیکھیں گے ابھی تو صرف گزار رہے ہیں۔
زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے خود اعتماد ہونا ضروری ہے اور اسکے ساتھ ساتھ اس سوچ اور ڈر کو ختم کرنا بھی ضروری ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔اپنے ذہنوں کو کھولیے اور نکلیں اس سوچ سے کہ لوگ کیا کہیں گے؟
امید ہے تحریر پسند آئی ہو گی۔شکریہ

Comments are closed.