جمہوری نظام آئین کی بنیاد پر چلتا ہے۔ آئین میں حکومت کے انتخاب اور اس کو چلانے کے لیے مفصل ضابطے دیے گئے ہوتے ہیں۔ مزید قوانین اور ضابطے بنانے کے لیے طریقہ کار بھی آئیں طے کرتا ہے۔ آئین اور دیگر قوانین تحریری شکل میں محفوط ہوتے ہیں۔
لیکن ملک کے سیاسی نظام کو چلانے کے لیے آئین اور قوانین کی کتابیں کافی نہیں ہوتیں۔ ہر ملک میں سیاسی روایات جنم لیتی رہتی ہیں اور وقت کے ساتھ پختہ ہوتی جاتی ہیں۔ عوام اور سیاستدان ان رویات کی اسی طرح پیروی کرتے ہیں جس طرح تحریری قوانین کے۔ یہ پیروی رضاکارانہ ہوتی ہے لیکن رفتہ رفتہ یہ روایات اتنی مستحکم ہوجاتی ہیں کہ ان کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ان روایات کے مجموعے کو ملک کا سیاسی کلچر کہا جاتا ہے۔
مستحکم جمہوری معاشروں سیاسی کلچر کو تحریری قوانین سے کم اہمیت حاصل نہیں ہوتی۔ برطانیہ میں دستور کا بڑا حصہ غیر تحریری یعنی انہی روایات پر مشتمل ہے۔
کسی معاشرے کا سیاسی کلچر اس کے مجموعی کلچر کا ائینہ دار ہوتا ہے۔ جیسی معاشرے کی مجموعی سوچ ہوتی ہے، ویسا ہی اس کا سیاسی کلچر پروان چڑھتا ہے۔ مثلاً ہمارے معاشرے میں مذہبی فرقہ واریت، شخصیت پرستی، قبائلی اور خاندانی عصبیت، نمود و نمائش، سخاوت وغیرہ کلچر کے اجزاء ہیں۔ ان کا اثر سیاسی کلچر میں نظر آنا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ سیاسی نظام معاشرے کے مجموعی ڈھانچے کا ایک حصہ ہوتا ہے اور اس سے ہم آہنگ۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ہم برطانیہ کا سیاسی کلچر لا کر اپنے معاشرے میں فٹ کردیں۔
تو کیا ہم اپنے سیاسی نظام کی برائیوں جیسے فرقہ واریت، شخصیت پرستی، قبائلیت وغیرہ کو تسلیم کرکے بیٹھ جائیں؟
ہر گز نہیں۔ یہ چیزیں جب تک ہمارے سیاسی کلچر میں ہیں، جمہوریت جڑ نہیں پکڑ سکتی۔ لیکن کلچر کو کسی انقلاب یا پارلیمنٹ کے ایکٹ یا ایکزیکیٹیو آرڈر کے ذریعے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔
اس کی ایک مثال ہمارے ہاں پارلیمنٹ کے ارکان کو ترقیاتی فنڈ دینے کی ہے۔ قانونی طور پر ان ارکان کا ترقیاتی کاموں اور فنڈ کی تقسیم سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ عملی طور پر بھی یہ کام بہت سی خرابیوں کا باعث بنتا ہے۔ موجودہ حکومت نے اس عمل کو یکسر ختم کردینے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ لیکن تجربے نے ثابت کیا کہ ایسا کرنا فوری طور پر ممکن نہیں، کیونکہ یہ سیاسی کلچر کا حصہ بن چکا ہے۔ یہی صورت حال بیوروکریسی کے سیاسی تبادلوں، ٹکٹوں کی تقسیم میں قبیلے اور براددریوں کا خیال رکھنے، سیاسی جماعت کی قیادت خاندان میں رکھنے وغیرہ کی ہے۔
ان سب چیزوں سے چھٹکارا پانے کے لیے ہمیں تعلیم کے فروع، جاگیرداریت کے خاتمے جیسی بنیادی ضرورتوں پر توجہ دینی ہوگی۔
ٹوئیٹر : Jawad_Yusufzai@
ای میل : TheMJawadKhan@Gmail.com
Shares: