کس بھی معاشرے کی خوب صورتی اس میں رہنے والے انسانوں کا آپس میں تعلق ہوتا ہے معاشرہ انسانوں سے بنتا ہے اور انسان ہی ایک اچھے یا برے معاشرے کے زمہ دار ہوتے ہیں ایک اچھا معاشرہ تب بنتا ہے جب وہاں ایک دوسری کے درمیان برداشت کا کلچر ہو وہاں ایک دوسرے کی رائے کو سنا جاتا ہو لوگ اختلاف رائے رکھتے ہوں مگر ایک دوسرے سے نفرت نہ کرتے ہوں مگر بد قسمتی سے پاکستان بھی اس بیماری سے دو چار ہے یہاں عدم برداشت کا کلچر بہت تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے سیاست دان سے لے کر مولوی تک ہر انسان اس کا زمہ دار ہے یہاں لوگوں کی بات سنی نہیں جاتی بلکہ کے اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہم دن بدن پرتشدد ہوتے جا رہے ہیں ہم کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کے خدا نے ہر انسان کو ذہن دیا ہے اور وہ سوچتا ہے اپنے نظریات قائم کرتا ہم کو چاہیے کے اگر ہم اس کے نظریات سے اختلاف کرتے ہیں تو دلیل سے علمی رد کریں مگر علمی رد کے بجائے ہم عدم برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں اب ہمیں یہ کون سمجھے کے ایک ہی رائے تب ہو سکتی ہے جب لوگ سوچنا چھوڑ دیں یا خدا ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت واپس لے لے عدم برداشت سے معاشرے میں خوف سا بن جاتا ہے نئے افکار لوگ اس ڈر سے بیان نہیں کرتے کے کہیں ہم مشکلات کا شکار نہ ہو جائیں
جس سے شاید ہم اس بات پر تو خوش ہو رہے ہوتے ہیں کے لوگ ہمارے پیروکار مگر ہم ذہنی غلام پیدا کر رہے ہوتے ہیں اور یہ اتنا خطرناک ہے کہ خاص کر جب یہ مذہب سے متعلق ہو تو آنے والی نسلیں الحاد کا شکار ہو سکتی ہیں کیوں کے ہم اپنے اس روایہ سے ان کے آندار سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو ختم کر رہے اور آج کے دور میں مذہب پر اعتراضات ان کے جوابات نہ ہونے کی وجہ سے وہ متنفر نہ ہو جائیں ہمیں چاہیے کے اور شعبہ میں برداشت کے کلچر کو فروغ دیں دوسروں کے موقف کو آرام سے سنائیں اور اپنی باری پر جواب دیں جواب نہ ہونے کی صورت میں جواب تلاش کریں نہ کے الزام تراشی کریں
@painandsmile334
Shares:








