پاکستان کا موجودہ سیاسی نظام کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ آج کوئی ایماندار اور قابل آدمی آگے بڑھنے کی کوشش کرے تو یہ اس کے لیے ناممکن بات ہو گی۔
بلکہ آج تو یہ تک کہا جاتا ہے کہ سیاست شریف آدمی کا کام نہیں۔
آخر کیوں ہم یہ نہیں چاہتے کہ اچھے لوگ سیاست میں آئیں کیوں ہم نہیں چاہتے کہ ہم اپنے انتظامی معاملات کسی اچھے انسان کے سپرد کریں۔؟
جبکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کے انبیاء انکی سیاسی رہنمائی فرماتے تھے۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنی اسرائیل کے انبیاء ان کی سیاسی راہنمائی بھی کیا کرتے تھے، جب ایک نبی وفات پا جاتے تو دوسرے نبی ان کی جگہ آ جاتے، لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔“ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! تو پھر کیا ہو گا؟ فرمایا: ”خلفاء (نائب) ہوں گے اور بہت ہوں گے، ان کا حق انہیں ادا کرو، اور اپنے حق کے متعلق اللہ سے سوال کرو۔“
صحيح البخاري #3455
یہ ناانصافی ہمارے ساتھ جو کی گئی ہمارے بڑوں کی طرف سے کی گئی ہے جن کی نیت تو اچھی تھی لیکن انکو یہ اندازہ نہیں تھا کہ اسکا نتیجہ اس صورت میں نکلے گا۔
کچھ لوگوں نے خود کو اس ذمہ داری سے اس لیے بھی دور رکھا کہ کل اللہ کے حضور اسکا حساب دینا پڑے گا۔

کچھ نے سوچا سیاست تو کسی شریف النفس آدمی کا کام نہیں
کچھ نے کہا ہمارا کیا لینا دینا سیاست سے ہم تو غیر سیاسی ہیں۔
ہمارے غیر سیاسی ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند مالدار لوگوں نے اہل نہ ہونے کے باوجود اس ذمہ داری کو سنبھال لیا اور اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے پیسے کا استعمال کیا اور پھر اپنے پیسے کے نقصان پورا کرنے کے لیے ہمارا ہی پیسہ لوٹا ۔
انتخابات میں پیسے کا استعمال اس قدر کیا جاتا ہے کہ اب کوئی غریب ایماندار آدمی تو انتخابات میں آنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
مسئلہ یہ ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی ہم وہیں پر کھڑے ہیں آج بھی ہم کسی شریف اور ایماندار آدمی کو آگے بڑھنے کا موقع نہیں دیتے آج بھی کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اسکا اپنا بیٹا بھتیجا یا کوئی عزیز اگر اس میں قابلیت ہے تو وہ آگے آئے اور انکے معاملات کو سنبھالے ہم لوگ بس انہی چند خاندانوں کے نعرے لگا کر خود کو مطمئن کر لیتے ہیں۔
آج بھی خاندان سے ایک شخص آٹھے گا اور کسی بدعنوان شخص کے چار نعرے لگائے گا کسی نااہل بندے کے ساتھ دو تصویریں بنائے گا اور پورے خاندان کی ووٹیں تھالی میں رکھ کر پیش کر دے گا ۔
آج اگر ہم بھی اپنے بڑوں کے اسی قول پر قائم رہے کہ “ ہمارا سیاست میں کیا کام “ تو جو ناانصافی ہمارے ساتھ کی گئی ہم آنے والی نسل سے اس سے بھی بڑی ناانصافی کریں گے۔

Shares: