حیاتِ قلب تحریر: نصرت پروین

0
77

دلِ مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہ ہی ہے امتوں کے مرضِ کہن کا چارہ
قلب انسانی جسم میں بادشاہ کی حثیت رکھتا ہے۔ انسان کے تمام احساسات، جذبات اور خیالات کا محور و مرکز یہ دل ہی ہے۔ یہ حیات کو بحال رکھنے کا اہم جزو ہے۔ یہ بہترین حصہ بھی ہو سکتا ہے اور اگر یہ شیطان کا آلہ کار بن جائے تو یہ بد ترین عضو قرار پاتا ہے۔ انسان کے تمام عقائد اور اعمال کا دل سے گہرا تعلق ہے۔ اور اسکا اثر انسان کی ساری حیات پر ہوتا ہے۔ لہذا دل کا بنیادی طور پر زندہ ہونا بہت ضروری ہے۔
بقول امام بخاری:
"عمل سب سے پہلے قلب کا ہے پھر اعضاء کا ہے۔”
رسول اللهﷺ نے فرمایا: جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر وہ ٹھیک ہو تو سارا نظام درست رہتا ہے۔ اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا نظام بگڑ جاتا ہے۔ جان لو وہ گوشت کا لوتھڑا دل ہے۔
اگر جسمانی طور پر کوئی بیماری لگ جائے تو ہم اسکا خوب علاج کرتے ہیں۔ لیکن اگر روحانی طور پر دل کو بیماریاں لگ جائیں تو اعمال کو گھن لگ جاتا ہے۔ خواہش پرستی، شہوت، حسد، خودغرضی، تکبر، کینہ، حرص اور شیطانی وسوسے یہ دل کی بیماریاں ہیں۔ ان بیماریوں میں مبتلا انسان کا دل الله کی یاد سے غافل ہوجاتا ہے اور انسان گمراہی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
حضرت ابراہیم بن ادھم رحمتہ الله علیہ سے کسی نے سوال کیا کہ دلوں کو کس چیز نے مردہ کیا ہے تو اس پر انہوں نے کہا تمہاری آٹھ عادتیں ایسی ہیں جس سے دل مردہ ہوجاتے ہیں:
۱۔ تمہیں الله تعالیٰ کے حق کی معرفت حاصل ہوئی۔( تمہیں پتہ لگ گیا کہ الله تعالیٰ کا حق کیا ہے؟) لیکن تم نے ادا نہیں کیا۔
۲۔ تم نے قرآن حکیم پڑھا لیکن اسکی حدود پر عمل نہیں کیا۔
۳۔ تم الله کے رسولﷺ کی محبت کا دم بھرتے ہو لیکن ان کی سنت پر عمل نہیں کرتے۔
۴۔ تم کہتے ہو کہ تمہیں موت کا ڈر ہے لیکن موت کے لیے تیاری نہیں کرتے۔
۵۔ الله تعالیٰ فرماتے ہیں:
بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے اسے اپنا دشمن ہی سمجھتے رہو(سورہ فاطر:6)
مگر تم نافرمانی کر کے شیطان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہو۔
۶۔ تم دوزخ سے اپنے خوف اور ڈر کا اظہار کرتے ہو۔ لیکن کام وہ کرتے ہو جس سے دوزخ میں جانا یقینی ہوجائے۔
۷۔ تم جنت کے خواہشمند ہو لیکن وہ کام نہیں کرتے جو تمہیں جنت میں پہنچا دیں۔
۸۔ جب تم بستروں سے اٹھتے ہو تو اپنے عیبوں کو پسِ پشت ڈال دیتے ہو اور لوگوں کی عیب جوئی میں لگ جاتے ہو۔
(احیاء العلوم)
بقول حافظ ابن قیم رحمہ الله جب دل مردہ ہو جائے تو اپنی معصیت کاشعور نہیں رہتا۔ (الفوائد) مردہ دل کے ساتھ جینا بہت ازیت ناک ہوتا ہے۔ ایسا دل گناہ کو گناہ نہیں سمجھتا۔ گناہ پر گناہ کرتا چلا جاتا ہے لیکن محسوس نہیں کرتا۔ ایسا دل اپنی مفید غذا ایمان کو چھوڑ کر مہلک بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایسا دل باطل عقائد میں مبتلا ہو جاتا ہے، وہ الله کو بھول جاتا ہے، اور خود کو شیطان کے سپرد کر دیتا ہے۔ اور پھر مردہ دل میں شیطان یہ بات ڈال دیتا ہے کہ میں تو میں گنہگار ہوں میری دعا کیسے قبول ہوگی۔ انسان گناہ کو گناہ نہیں سمجھتا اور توبہ کر کےگناہ چھوڑنے کی بجائے شیطان کے بہکاوے میں آکر دعا کرنا ہی چھوڑ دیتا ہے۔ بقول شاعر:
تیری دعا میں اثر کچھ اس لئے بھی کم ہوگیا
تیری روح سو گئی، تیرا دل مردہ ہو گیا۔
آپ غور کریں آپ جب بھی کوئی کام کرتے ہیں تو ایک بات
آپکے رب کی طرف سے ہوتی ہے اور ایک وسوسہ شیطان کی طرف سے۔ تو آپ شیطان کے وار سے بچنے کی کوشش کریں اور وہی کام کریں جو رب کو پسند ہو۔
حضرت ابو ھریرہ سے روایت ہے نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ بے شک مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے اور اگر استغفار کر لے تو اس کے دل کو صاف و شفاف کیا جاتا ہے۔ اور اگر وہ گناہ کرتا چلا جائے تو سیاہ دھبہ پورے دل پر چھا جاتا ہے۔
مسند احمد کی روایت میں ہے دل چار قسم کے ہوتے ہیں:
پہلا قلب (سلیم) یعنی ایسا دل جو صاف شفاف ہوفرمایا اس کی مثال روشن چراغ جیسی ہے۔ جس میں کوئی خرابی نہ ہو۔
دوسرا قلب اغلف ہے جو غلاف میں بند کر دیا گیا ہے اور پھر اوپر سے دھاگے کے ساتھ باندھ دیا گیا۔
تیسرا قلب منکوس یعنی اوندھا دل ہے اس کا سر نیچے اور پیندا اوپر ہے۔
چوتھا دل مخلوط دل ہے دوپہلو والا دل۔
پہلا دل تو مومن کا ہے جو پوری طرح نورانی ہے۔ دوسرا دل کافر کا ہے جس پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔ تیسرا دل منافق کا ہے جو جانتا ہے اور انکار کرتا ہے۔ اور چوتھا دل اس منافق کا ہے جس مین ایمان اور نفاق دونوں جمع ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مردہ دل کیسے زندہ کیا جائے؟
مردہ دلوں کو الله زندہ کر سکتا ہے الله کا قرآن زندہ کر سکتا ہے۔ تو الله سے مدد مانگی جائے۔
الله رب العزت کا فرمان ہے:
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ ۬ ۙ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۵۷﴾
ترجمہ: اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لئے شفا ہے اور رہنمائی کرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کے لئے۔
(سورہ یونس:57)
حافظ ابن قیم رحمہ الله نے بیان کیا ہے کہ جس نے یاحی یا قیوم مسلسل کہنا شروع کر دیا الله اس کے دل کو زندہ کر دیتے ہیں۔
انسان سب سے پہلے دل کے اندر رب کو دریافت کرے۔ تفکر و تدبر، صبر و شکر، توکل، اور اخلاص یہ ایسے اعمال ہیں جن کا تعلق دل کی عبادت سے ہے
رسول کریمﷺ نے فرمایا آدمی کا دل الله تعالی کی دو انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہوتا ہے جب چاہے اسے سیدھا رکھتا ہے اور جب چاہے اس ٹیڑھا کر دیتا ہے لہذا دل کی سلامتی کے لئے آپﷺ کثرت سے یہ دعا کرتے۔
یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِكَ
اے دلوں کو الٹ پلٹ کرنے والے!میرے دل کو اپنے دین پر جما دے۔
(مسند احمد:26679)

قلب سلیم سے مراد سلامتی والا دل ہے۔ جو خالص توحید پر مشتمل ہو۔ حق پر ہو۔ بے عیب ہو۔ نفاق، سرکشی، نافرمانی، حسد اور شک و شبہ سے پاک ہو۔
انسان جب دل کی عبادت سے متعلقہ اعمال جو اوپر بیان کئے گئے ہیں انجام دیتا ہے تو وہ رب کو پالیتا ہے۔پھر الله انسان کو نور دیتا ہے۔ انسان اسی نور کی روشنی میں صالح اعمال کرتا ہے اور قلب سلیم تک پہنچ جاتا ہے۔
تو دل بدلیں۔ اور قلب سلیم کے مقام تک پہنچ جائیں۔دل بدلے تو زندگی بدل جاتی ہے۔
زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں۔
@Nusrat_writes

Leave a reply